آمریت جمہوریت اور عوامی مفاد

Dictatorship

Dictatorship

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ کریم خدائے لم یزل مالک وخالق بے نیاز کی لامحدود حمد ثناء اور وجہ ء تخلیق کائنات جناب محمد مصطفی کریم کی ذات بابرکات پر ان گنت درودوسلام پیش کرنے کے بعد راقم نے آج سیاست دانوں کی اس گالی پر یہ چند سطور ترتیب دی ہیں جو وہ اکثر ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں ہمارے لیڈر ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ خالص جمہوری حکمران ہیں اور دوسرا آمریت کی پیداوار ہے اس بات سے قطع نظر کہ کون آمریت کی باقیات میں سے ہے اور کون عوامی لیڈر ہے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ عوام اور ملک کا خیر خواہ کون ہے کس حکومت نے عوامی مسائل کو حل کیا اور کس نے محض کھوکھلے نعروں سے عوام کو بے وقوف بنائے رکھا اور ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا
سیاست کی بساط پر موجود دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں ہی جرنیلوں کی پیداوار ہیں۔

انقلابی ذہن رکھنے والے عوامی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جنرل ایوب اور موجودہ وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے سجادہ نشین ہیں ایک گھر جسے محض جمہوری سیاست دان ہونے کا شرف حاصل تھا وہ چوہدری ظہور الہی مرحوم کا تھا مگر موجودہ چوہدری برادران نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ کر اپنے گھر کا یہ اعزاز ختم کرلیا کہ وہ جمہوری قدروں کے لیے قربانی دینے والے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں بلکہ اب یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ بھی اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی سیڑھی پر چڑھ سکتے ہیں خواہ وہ کسی مارشل لاء لگانے والے جرنیل کے کندھے ہی کیوں نہ ہوں ق لیگ ملک کی وہ واحد جماعت ہے جس میں قابل ترین لوگ موجود ہیں۔

ر مشرف صاحب کے اقتدار میں وہ مشرف کی حکومت کا اٹوٹ انگ رہے اب وال چاکنگ اور نعروں سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اقتدار میں آنے دو کالا باغ ڈیم بنا دینگے واہ جنرل صاحب کی حکومت کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب اختیارات میں جناب چوہدری برادران کے علاوہ کوئی دوسری سیاسی پارٹی شریک نہ تھی اور جنرل صاحب اپنی ساکھ بچاتے بچاتے ان کے ہر مشورہ پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرتے تھے اسوقت کالاباغ ڈیم بنانے سے کس طاقت نے روک رکھا تھا اس ڈیم کے مخالف عناصر تو اسوقت بھی وہی لوگ تھے جو اب ہیں یہ الگ بات ہے کہ اب میاں برادران نے انہیں اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔

مجھے ق لیگ کے دبنگ لیڈر مشاہد حسین سید سے ملاقات اور ملکی حالات پر بات کرنے کا موقع ملا ہے میں انکے دل میں چھپے عوامی درد اور انکی صلاحیتوں کا قائل ہوں مگر پارٹی کے اندر نافذ جمہوریت شائد ایسے لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتی کیونکہ آج کل پارٹیاں بھی انہیں کی ہیں جو آغاز سے اب تک ریفرنڈم کرواکر پارٹی صدر بنتے چلے آئے اور عوامی جمہوری حکومتوں میں ریفرنڈم نہیں ا نتخابا ت ہوتے ہیں مسلم لیگ ن کے حالیہ پارٹی انتخابات پر اسی جماعت کے سیئنیر رکن اور منجھے ہوئے سیاست دان سید ظفر علی شاہ کا بیان آن دی ریکارڈ ہے۔

Democracy

Democracy

جنرل محمد ایوب خان کا دور تھا چینی کے نرخ بڑھانے کے لیے تاجران کے وفد نے دبائو ڈالا جو مسترد کردیا گیا ہڑتال کی دھمکی آئی تو گائوں کے نمبردار کے ذریعہ ہر گھر کا چینی کا کوٹہ مقرر کردیا گیا جو مقررہ وقت پر ہر گھر کو مل جاتا تھا عائلی قوانین بنائے گئے اقتدار کو عوام تک منتقل کرنے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر عوامی نمائندوں کا انتخاب کرکے انہیں عوامی مسائل کے حل کے لیے پوری معاونت دی گئی۔

روائیتی حریف اور مکار بھارتی حکمرانوں نے معائدہ کی خلاف ورزی کرکے 65 کی جنگ چھیڑ دی تو (اس حکمران جسے ڈکٹیٹر کہتے ہیں ہمارے آج کے لیڈر )نے بھارت کا سارا زعم مٹی میں ملا دیا اور خود فیلڈ مارشل کا خطاب پایا جو آج تک انہی کو حاصل ہے پھر ہوا یہ کہ انکے جوتے اپنی قمیض سے چمکانے والے منسٹر ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اندر ون خانہ بغاوت تیار کرکے انکے خلاف احتجاجی تحریک شروع کروا دی جب احتجاج کرنے والوں نے ایوب صاحب کو کتا کہہ ڈالا تو وہ خود اقتدار سے علیحدہ ہو گئے اور پھر لاکھ اصرار پر بھی واپس نہ آئے پھر پیپلز پارٹی وجود میں آئی جس کے لیڈروں نے اس بھولی بھالی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا جو آج تک ہم بھگت رہے ہیں روٹی کے حصول میں ہی ایسے الجھے کہ کپڑوں کا ہوش نہ رہا اور مکان تو ایک خواب بن کر رہ گیا اور بھٹو آج بھی زندہ ہے قوم چاہے بھوک سے مرگئی سیلاب سے دریا برد ہوگئی یا اغیار کی جنگ میں قربانیاں دے دے کر ہر بار بھٹو کو زندہ رکھے ہوئے ہے تاریخ نے اپنے آپکو دہرایا بھٹو صاحب کے منظور نظر اور دوسرے سیئنیر جرنیلوں کو رول بیک کرکے بنائے گئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کے ہاتھوں تختہ دار پر پہنچا وہی عوامی لیڈر جو آج بھی زندہ ہے ضیاء صاحب نے سیاست کی پنیری کاشت کی تو جو پودے انکے منظور نظر بنے ان میں سے میاں محمد نواز شریف وہ قد آور درخت بنے جنہوں نے سیاست کی پوری بساط پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

اقتدار میں غیر کی شراکت کو شجر ممنوعہ سمجھنے والے میاں صاحب نے عوام پر متعدد بار حکومت کرکے تاریخ کا وہی سبق دہرایا اور ایک جرنیل کو دوسرے قابل جرنیلوں پر ترجیح دی اسے افوج پاکستان کا سربراہ مقرر کیا اور ہوا وہی جس کا ڈر تھا میاں صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور عوام کی خاطر سیاست کرنے والے میاں صاحب جرنیل سے معائدہ کرکے باہر چلے جانے میں کامیاب ہوگئے انکی جماعت کے اکثر ارکان انکی توقعات کے برعکس مشرف کے اقتدار میں شریک ہوگئے اور پنجابی کی کہاوت لالی کے بھینس کو چت لٹانے کے مترادف مشرف صاحب سے این آر او پاس کروانے میں کامیاب ہو گئے جسکے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ وہ تمام سیاست دان بے گناہ اور گنگا نہائے قرار دیے گئے اور انہیں انتخابات میں باقاعدہ حصہ لینے کی اجازت مل گئی پھر دونوں پارٹیوں میں ایک وہ معائدہ ہوا جس نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا جسے پارٹی سربراہان میثاق جمہوریت کہتے ہیں وہ معائدہے کہ جس پر آج تک سیاست دان قائم ہیں۔

PML-N

PML-N

ایک حکومت کرے تو دوسرا کندھا لگائے گا اور پھر اسکی باری آئی تو کندھا اسے ملے بھی گا اور یوں آج تک ہم وہ سزا بھگت رہے ہیں جسکو ختم کرنا کسی عدالت کے اختیار میں ہے نہ جج کے میاں صاحبان کی انتقامی سیاست کی وجہ سے جن لوگوں نے مشرف سے این آر او پاس کروایا میاں صاحبان نے انہیں پارٹی کے غدار قرار دیا اور یوں مسلم لیگ کی ایک نیء برانچ ق لیگ کھل گئی جس میں فارورڈ بلاک بننے سے میاں صاحبان کی حکومت کو خاص طور پر پنجاب میں وہ مضبوط کندھا مل گیا جس پر بیٹھ کر خادم اعلیٰ نے اپنے پنج سالہ اقتدار کو پورا کیا پھر تو اوپر بھی اپنی باری آگئی زرداری میثاق جمہوریت کے تحت اتنی بری طرح ہارے کہ کئی عوامی لیڈر بھی شکست فاش کا شکار ہوئے میرے اپنے علاقہ سے ہر دل عزیز لیڈر میاں منظور احمد وٹو کو ایک ایسے پولنگ اسٹیشن سے کل سات ووٹ ملے جو انکا اپنا ووٹ بینک تھا پھر پانچ سال تک کندھا دینے والوں کو من مرضی کی وزارتیں ملیں اور آج تک عوام پہ مسلط ہیں اس سارے قصہ میں عوامی مفاد کا کہیں بھی ذکر ہے تو بتادیا جائے میٹرو بس ٹرین سڑکیں اور دیگر ایسے منصوبے بنے جن سے حکمران پارٹی کے ذاتی مفاد ذیادہ اور عوامی مفاد نہ ہونے کے مترادف ہیں۔

تعلیم صحت اور روزگار کے شعبوں کو رول بیک کرکے میٹرو کو ترجیح دی گئی عوام کو شعور اور بیداری دینے کے لیے اب علامہ محمد اقبال تو دوبارہ آنے سے رہے جب تک بھٹو زندہ ہے اور شیر دھاڑتا رہے گا عوام کا اللہ ہی حافظ ہے شیر کی جگہ شعور اور بھٹو کی جگہ عوام زندہ ہو گئی تو شائد اس ریاست کو وہ قیادت مل جائے جو اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنادے کب یہ شائد درست کوئی نہ بتا سکے قیادت سیاسی ہو یا فوجی حکمران جو عوام کا دکھ درد سمجھے وہی عوامی لیڈر ہوتا ہے جو دووقت کی باعزت روٹی بیماری کی حالت میں مناسب علاج معالجہ بچوں کی تعلیم کے لیے مواقع اور روزگار کے حصول میں ناکامی پر کوئی بچہ خود کشی نہ کرے یہی کچھ عوام کی ضرورت ہے۔ والسلام

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی