براہ راست معاملہ

Terrorism

Terrorism

تحریر : اعجاز بٹ
ملک پاکستان کی سالمیت پر حملے ہو رہے ہیں خطے کا امن تباہ کر نے مذ مو م کو شیش کی جا رہی ہیں چند دن قبل ہم مطمئین ہوئے تھے کہ ملک کا امن بحال ہو چکا پاک افواج سمیت دیگر اداروں نے دہشتگردی پر قابو پا لیا مگر یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح سے یک لخت ملک کے چاروں صوبوں میں کہرام مچ جائے گا اور ہم افسو س زدہ ہو کر رہ جائیں گے جہاں اس طرح کی فضائیں گر دش کر تی ہوں وہا ںیہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ہم کس ماحول میں کیا بات کرر ہے ہیں ، ملک دشمن عناصر جو کل تک پاکستان کو انگریز کی سا زش کی کامیابی قر ار دے رہے تھے آج وہی لوگ ملک پاکستان میں اپنا من پسند اسلا م نا فذ کر نے کے خواہاں ہیں ہر ایک اپنی پسند ید ہ ما لاجپنے کی دھن میں مگن ہے۔

قارئین کرام بہت عالم فاضل تو نہ ہوں مگر انسان کے روپ میں قادر قدرت نے دنیا میں بھیجا ہے چند ایک اصولوں سے تو واقف ہوں جس دین کے نا م پر انسانی گردنوں کو تن سے جدا کیا جا رہا ہے وہ تو امن کا دین ہے اسلام سے تعلق رکھنے والے تمام افراد ایک لاکھ چو بیس ہزارنبیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں جن میں چار آسمانی کتا بیں بھی ایمان کا حصہ ہیں جن کے بغیر اسلام کا پیرو کار ہو نا نا ممکن ہے یا آسان الفاظ میں آپکو یہ بتا تا چلوں کہ دنیا میں موجودتمام مذاہب ایک ہی بنیا د پر قائم ہے وہ بنیاد انسانیت ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اورا نسانیت کے قاتل کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

ماضی کے ادوار میں اگر دیکھا جائے تو مذہب کے نام پر انسانیت کو کئی مر تبہ پامال کیا گیا ہے خواہ وہ رومن دورمیںکلیسا کا قتل عام ہو یا مو جودہ دور میں من پسند اسلام کی خاطر بچوں ، نو جوانوں ، خواتین اوربو ڑھوں کی گردنیں اترانے کا سلسلہ ہو افسوس اس بات پر کہ ایسے شر پسند عناصر دین امن کا نا م لیبل کے طور پر استعمال کر تے ہیں جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان دہشتگروں کے مذمو م واقعات میں شہید ہونے والے خاندان کے واحد سہارے کی ماں ، بہن کس طرح زندگی گزارے گی اس کاذریعہ آمدن بند کر کے کون سے دین کی عکاسی کر رہے ہیںدین اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوںکہ ا گر کوئی بے سہارا عورت اپنی عز ت فروخت کر کے اپنے خاندان کا چولہا جلائے اور اس کی وجہ صرف دہشتگرد ی کا وہ واقع ہو جس میں اس کا سہارا چل بسا ہو تو پھر خو د کو کس دین میں شامل پائو گے؟قارئین کرام ملک پاکستان کے پا س تما م ترمعا ملا ت سے نمٹنے کیلئے بے پنا ہ وسائل ، لا کھو ں کی تعداد میں ماہر جوان وافسر بہترین دماغ مو جو د ہیں اگر نہیں ہے تو احساس نہیں ہے سو شل میڈیا پر اکثر پڑ ھنے کو ملتا ہے کہ ہم ما سو ائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکتے کبھی یہ بھی سو چا ہے کہ ہم بے حس کتنے ہیں ، کسی بھی اچھے برے کا م کو انجا م دینے کیلئے معاونت درکار ہوتی ہے اور ان میں سو نے پر سہا گہ مقامی افراد کی معا ونت ہے۔

اگر چند لوگ جانے انجانے میں خطہ کا امن تباہ کر نے میں معاونت کر یں تو وہ بھی بر ابر کے شریک ہیں تمام معاملہ میں اگر ہم روزمرہ کی زندگی میں غور کر یں تو ہمسایہ کا بچہ گالی دے تو زبان کاٹ دو اور اگر اپناعز یزلخت جگر کسی کا سر پھاڑ دے تو فوراً خیال آتا ہے کہ بچوں کو احسن طریقہ سے سمجھانا چاہیے یہ دو ہرا معیار سو چ و عمل ہی اصل وجہ ہے سہولت کاری کی اور اسی سے معاشر ے میں برائیاں جنم لیتی ہیں اور ہم نے تو ان سیاستدانوں سے بھی خو ب سبق حاصل کیا ہوا ہے کہ قانون صرف غریب اور مخالف کیلئے اپنے لئے استثنٰی بھی قابل فخر ہو جا تا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ دہشتگردی کی مذموم کاروائی کی دہشت پھیلانے میں میڈیا بھی استعمال ہورہا ہے کسی کی نیت پر شک نہیں کررہا لیکن پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں ہر کوئی چیخ چیخ کر خبر بیان کر رہا ہوتا ہے اور فوٹیج حاصل کرلی ،سب سے پہلے ،جیسے کلمات ادا کر کے فخر محسوس کیا جاتا ہے باقی رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر شہدا کے لاشوں کی ویڈیو چڑھا کر ملک کو بدنام تو کیا جاتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ ان لاشوں کی تذلیل بھی ہوتی ہے ہمیں اپنی ان حرکات پر بھی غور کرنا چاہیے۔

حکمران عدالتوں ، صحا فیوں اور اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن تب تک جب تک وہ ان کا احترام کرتے رہیں بصورت دیگر اپنی اپنی مہارت اور چالباز ی میں سب سے سبقت لینے کا سلسلہ طول پکڑ جاتا ہے افسو س کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ بے گناہ لو گ پابند سلاسل پڑ ے ہیں ان کی ضمانت کی تاریخ بھی مشکل سے ملتی ہے جبکہ سیاسی جماعت کے دبائو کی وجہ سے پانامہ لیکس کی سماعت ہے کہ مکمل ہی نہ ہو پا رہی تھی بالآخر مکمل ہوئی تو حسب سابق اس کا بھی فیصلہ محفوظ کرلیا گیا اور اگر اس پہلو میں جھا نکیں تو دو نوں جانب سے چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا جا تارہا۔ان تمام معاملات میں خود کے شعبہ نے بھی مایوس کیا کہ میڈیا ہاؤسز کے درمیان مقابلہ کی جنگ چھڑی رہی اور جماعتی میڈیا کے طور پر رپورٹنگ ہوتی رہی۔

قارئین کرام تمام باتوں کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ خو د کی اصلاح کی خاطر یہ بحث کی گئی ہمیں حقیقت کی کشتی میں سو ا رہو کر مشکلات کی دلدل کا جائز ہ لینا ہو گا او ر ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت اور بہتر مستقل کیلئے اس مذ ہب کے نام پر گھنا ئونے کھیل کی نہ صرف نقی کرنی ہو گی بلکہ اس جنگ سے ملک پاکستان کو چھٹکارہ دلانے کیلئے اپنی لبساط کے مطابق حصہ ڈالنا ہو گا کیونکہ عقیدہ ہو یا دین بندے اور خدا کا براہ راست معاملہ ہے اور ایسے معاملات جو بندے اور خالق کے درمیان براہ راست ہوں ان میں مداخلت کرنے والوں کا مقام احمقوں کی جنت کے سوا کچھ نہیں۔

Ijaz Butt Logo

Ijaz Butt Logo

تحریر : اعجاز بٹ