بے پناہ ملکی وسائل کرپشن کی زد میں

Corruption

Corruption

تحریر : عبدالجبار خان
ڈائریکٹر نیب کے پی کے طارق خان نے کہا ہے کہ ملک میں ہر روز سات ارب روپے کی کر پشن ہو تی ہے یہ بات پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ملک کے لئیانتہائی تشویشناک ہے اگر اس کر پشن کو دیکھا جائے تو ملکی صورت حال کے بگاڑمیں بڑا ہاتھ ہی کر پشن کا ہے جس میں موجودہ دور معاشرے میں ابتر ہوتی صورت حال افراتفری بد امنی لڑائی جھگڑے فسادات جر ائم غربت وسائل کی کمی اوردیگر مسائل میں آضافہ ان سب نے معاشرے کوتباہی کے دہا نے پر لا کھڑاکیا ہے آج کے دور میں ہم اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمارے ضمیر کے خواص مردہ ہو گئے ہیں ایک دوسر ے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہم اپنے ساتھ چلنے والوں کا ہی گلہ دبا کر ان سے آگے جا نے کے لئے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں اس آگے دوڑنے وبڑھنے اور عروج کی بلندیو ں کو چھونے کے لئے نہ جا نے کتنے حق دار وں کا حق مارلیا جا تا ہے کر پشن اپنے اند ر وسیع معنی رکھتی ہے کرپشن صرف رشوت لینے دینے کا نام نہیں بلکہ کرپشن رشوت کے ساتھ سفارش ‘ اختیارت کا ناجائز استعمال ‘ فرائض میں جان بوجھ کر غفلت لاپر وہی ملاوٹ چوری دونمبری جرائم کا ساتھ دینا قومی مفادات کو نقصان پہنچانا سب کر پشن کی ہی شکلیں ہیں جسطرح کر پشن نے ہمارے ملک کا امن بھی تباہ کیا تودوسری طرف بے پناہ ملکی وسائل کو بھی تباہ کیا ہے۔

ہمارے قومی منافع بخش ادارے اس کرپشن کی وجہ سے تباہی کر طر ف چلے گئے ہیں جن کی نیلامی کے سواکوئی چارہ نہیںپاکستان میں کرپشن کی وجہ سے عام آدمی کی حالت ہے کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی جبکہ پا کستا ن سے بعدمیں آزاد ہو نے والے ممالک آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں جن پر آج دنیا رشک کر تی ہے پاکستان کے قدرتی وسائل کی بات کی جائے توپاکستان جغرافیائی اعتبارسے ان چند ممالک میں شامل ہے جن کو سال کے چار مو سم نصیب ہوتے ہیں اور دھرتی دریا سمند رپہاڑ اور زرخیز زمینوں سے مالا مال ہے جہاں دنیا کے مقابلے میں نوجوان پر مشتمل افرادی قوت باقی دنیا کے مقابلے پاکستان میں زیادہ ہے پر نوجوان بے روزگار ہے جو ضا ئع ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے زمینی و قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو صرف صوبہ سندھ کے صحرا تھر میں 150ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جس سے اگلے 50 سال تک سالانہکئیہزار میگاواٹ بجلی پید ا کی جا سکتی ہے بلوچستان کی دھرتی کا چپا چپا قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے ریکو ڈیک میں سونے اور تانبے کے ہزاروں ٹن کے ذخائر موجوہ ہیں جو ناقص حکمت عملی کی وجہ سے زمین میں دفن ہیںگوادرجیسی نعمت شاید ایسا انمول رتن کسی ملک میں ہو جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا زراعت اور لائیوسٹاک میں پا کستا ن دنیامیںاپنا ایک مقام رکھتا ہے دنیا بھر میں دودھ اور آم کی پیداوار کے لحاظ سے پا کستا ن پا نچویں نمبرپر ہے اس طر ح کپاس میں چوتھے گندم میں اٹھویں چاول میں دسویں رقبے کے لحاظ سے 34ویں زرخیز زمین کے لحاظ سے دنیا میں 52نمبر پر افرادی قوت کے لحاظ سے 10ویںگیس کے ذخائر کے لحاظ سے 29 ویںنمبر پر برآمدات ‘توانائی کی پیداوار ‘جی ڈی پی ‘ صنعتوں کی ترقی کے حوالے سے پاکستان کا شما ر دنیا کے 20 ممالک میں ہو تا ہے پاکستان میں اتنے سارے وسائل اور لو زامات قدرتی نعمتوں و معدنیات سے مالامال ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک نما یا حیثیت کاحامل ہے جن کوایما نداری سے استعمال کر کے پا کستان دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آسانی سے کھڑا ہو سکتا ہے پر اتنے وسائل کے با وجو د پاکستان دن بدن قرضوںکے بوجھ تلے دبتا چل جا رہا ہے اور عوام ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کی بجائے مزید دبتی جا رہی ہے۔

ِاب ملک چلا نے کے لئے آئی ایم ایف سے استدعا کر کے ان ہی کی من ما نی اور کڑی شرائط پر قرض حاصل کر کے نظام حکومت چلایا جاتاہے ان قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے اب پا کستا ن پر بیر ونی قرضوں کا حجم کئی گناہ تک بڑھ گیا ہے دوسری طرف سوئس بنکوں میں پڑی رقم بھی اس ملک کے با شند وں کی ہے جن کا ملک قرضوں پر چل رہا ہے جس کے عام غریب با شندے دو قت کی روٹی کے لئے خون پسینہ جلاتے ہیں جن کو بامشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہو پاتی ہے جن کے سروں پر چھت نہیں جن کے بچے سکول کی بجائے گلیوںکی خاک چھانتے ہیں مصوم بچے علاج نہ ہو نے کے باعث سسکیاں لے کر مر جاتے ہیں اگر صرف باہر کے ملکوں کا پیسہ واپس لایا جائے تو پاکستان کے تمام قرضے اتر جائیں گئے۔

معیشت میں استحقام آجائے گی جس کا فائدہ ہر خاص وعام سب کو ہو گا اب موجو دہ حالات کے تناظر میں بات کر یں تو جس کا جتنا بس چلتا ہے تووہ اپنے اپنے حصے کی کرپشن کر رہاہے جب کوئی بڑا کرپٹ ہو گا تو چھوٹے بھی کرپشن کیے بغیر کیسے رہے سکتے ہیں کیا؟پھر جس کا جہا ں جتنا داؤ لگتا ہے وہ لگا لیتا ہے اس معاشرے میں کو ئی ایما ندار ہے وہ کر پشن نہیں کر تا رشوت نہیں کھاتا دونمبری نہیں کر تا ملاوٹ نہیں کرتا وہ دنیا والوں کی نظر میں بے وقوف سمجھ جا تاہے یا پھر اس کو یہ خطاب دیا جا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا اس کو مو قع نہیں ملتا ہے کرپشن کے خاتمے کے لئے قا نون کی بالا دستی ہو نی چاہیے اور سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں جن کا نفاذہرخاص وعام سب پر ہو نا چا ہیے کوئی شخصیت عہدے دار اس قا نون کے دائرے سے باہر نہ ہو بلکہ خلفاء راشدین کی طر ح قاضی وقت کے سامنے جواب دے ہوں۔

Abdul jabbar khan

Abdul jabbar khan

تحریر : عبدالجبار خان