گدھوں کی مجلس

3 Donkeys

3 Donkeys

تحریر : سجاد گل
ایک کھیت میں تین گدھے مجلس کر رہے تھے، ایک گدھا کہنے لگا چلو آج ہم ایک دوسرے کو ایسے واقعات سناتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش آئے ہوں اور ہم نے ان سے کوئی سبق حاصل کیا ہو،پہلے گدھے نے اپنی داستان یوں سنائی ایک دفعہ مجھ سے ایک بیل نے کہا گدھے میاں تم بہت خوش قسمت ہوتمہیں ذیادہ کام نہیں کرنے پڑتے،اور دوسری طرف مجھے دیکھو ، کام ہی کام،کبھی ہل چلانا ، کبھی بیل گاڑی کے آگے ، اور کبھی تیل نکالنا،میری زندگی تو کسی عذاب سے کم نہیں،میں نے اسے مشورہ دیا کہ تم بیماری کا بہانہ کر کے اس عذابِ مسلسل سے بچ سکتے ہو،ہماری گفت و شنید مالک نے سن لی،اگلے دن بیل نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور گردن لٹکا کر بیماری کا ناٹک کرنے لگا ، مالک نے بیل کے سارے کام مجھ سے کروائے،شام کو میں تھکا ہارا بیل کے پاس گیاتو بیل بہت خوش تھا اور کہنے لگا آج آرام ہی آرام تھا،میں اسکے برعکس شرمسار وپرشان،بیل نے پوچھا سنائو کیسا رہا،میں نے کہا بیل میاں مجھے اسکی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں،میری بات غور سے سنو،مالک قصاب سے بات کر رہا تھا کہ میرا بیل شدید ہلالت کے باعث کچھ کھا پی نہیں رہا،اور اگر اسکی کل بھی یہی حالت رہی تو اسے لے جا کر بوٹی بوٹی کر کے فروخت کر دینا۔

لہذا تم اس ناٹک کے باب کو بند کر کے فوراََ کھانا پینا شروع کر دو،یوں میری اس عذاب سے جان خلاص ہوئی،اس واقعہ سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ، کیوں اپنے سر لیں ،سرِ درد دوسروں کا دوسرا گدھا بولا،میرا قصہ کچھ یوں ہے ، میرا مالک نمک کا بیوپاری ہے،وہ شہر سے گائوں مجھ پر نمک لاد کر لاتا ہے،راستے میں ایک نہر آتی ہے،ایک دفعہ میرا پائوں پھسلا اور میں نہر میں جا گرا،میں نہر سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا مجھ پر لادا بوجھ کم ہو گیا ہے، یوں میرے ذہن میں کام چوری آ گئی،میں ہر روز جان بوجھ کر نہر میں جا گرتا، مالک میری چالاکی بھانپ گیا، ایک دن اس نے مجھ پر روئی لادی اور نہر کے پاس سے گزرنے لگا ،میں حسب معمول نہر میں جا گرا،جب نہر سے نکلا تو یہ جان کر حیران ہو گیا کہ آج بوجھ کم ہونے کے بجائے ذیادہ ہو گیا ہے،پھر میرے ساتھ جو ہوا خدا کسی سے نہ کرے،میں نے اس واقعے سے یہ سبق حاصل کیا ہے۔

کام چوری بری بلا ہے یارو تیسرے گدھے نے لمبی آہ لی اور اپنی کہانی شروع کی،یارو ہو اکچھ یوں کے ہمارے مالک کے صحن میں ایک درخت تھا اس پر ایک بندر رہتا تھا،مالک ہر روز دودھ دہی بننے کے لئے رکھتا اور وہ بندر اسے چٹ کر جاتا،اسکے بعد یہ عمل کرتا کہ تھوڑا سا دہی میرے منہ پر مَل دیتا ،صبح جب مالک آتا تو یہ سمجھ کہ چور میں ہوں ڈنڈا اٹھاتا اور میری پٹائی شروع کر دیتا،مگریہ بندر کھیل ذیادہ عرصہ تک نہ چل سکا ، ایک دن مالک نے بندر کو یہ ڈرامہ کرتے تاڑ لیا،پھر اس بندر کے ساتھ جو ہوا، اللہ کسی دشمن کے ساتھ بھی ویسا نہ کرے،میں نے اس واقعہ سے یہ سبق حاصل کیا ۔ سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے گدھوں کی اس مجلس میں ہمارے لئے کیا سبق ہے اسکا ذکر کرنے سے پہلے میں اللہ تعالی کے مقدس ومطہر کلام کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر ١٧٩ کا مفہوم بیان کرتاہوں جس سے اصل نقطہ واضع ہو جائے گا۔

ALLAH

ALLAH

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، (مفہوم) صرف شکل انسانوں والی ہوتو اس سے کام نہیں چلتا،ان انسانی شکلیں رکھنے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے سینے میں دل تو موجود ہیں اور دھک دھک دھڑکتے بھی ہیں ،ہاں مگر ان دلوں میں درد نہیں،انکی آنکھیں بھی ہیں ،مگر کس کام کی وہ آنکھیں جو حقائق نہ دیکھ سکیں ،ان کے کان بھی ہیں ،مگر نہ ہونے کے برابر، ایسے بے سود کان جو سچ نہ سن سکیں ،یہ وہ لوگ ہیںجو بس کھانے پینے اور افزائشِ نسل کے لئے جیتے ہیں،انکی زندگی بے معنی و بے مقصد ہوتی ہے، جولوگوں کے دکھ درد اور مسائل سے غافل ہیں،جو حقائق سے غافل ہیں ،قرآن کے سیدھے سیدھے الفاظ ”(ایسے لوگ جانور ہیں ،بلکہ جانوروں سے بھی گئے گزرے”)۔

قارئین کرام انسانوں اور جانورں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے،اگر گستاخی نہ ہو تو ایک بڑی بات کرنے لگا ہوں کہ ہم تو جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں،تمام جانوروں میں تو کتے اور خنزیر بھی آتے ہیں اور قرآن نے تو غافل لوگوں کو تمام ہی جانوروںسے برا کہا ہے،چھوڑیں تمام جانوروں کی بات میں گدھوں کی اس فرضی مجلس کے پیش نظر اپنی بات کو آگے بڑھاتا ہوں،ان گدھوں نے تو اپنے اپنے واقعات اور ماضی سے سبق حاصل کیا مگر سوال یہ ہے ،کیا ہم نے بھی اپنے ماضی ،کسی حادثے ،اور کسی واقعے سے کوئی سبق سیکھا ہے؟یا ہر داستان کو گردشِ ایام کے صحرا میں دفن کر کے غا فل ہو کر اس شعر کا مصداق بن گئے ہیں، کب تک الجھو گے ،درینہ الجھنوں میں تم حادثے روز ہوتے ہیں ،بھول بھی جائو اباگر ہم گدھوں سے گے گزرے نہیں تو ہمیں غفلتوں کی گہری نیند سے جاگ کر ہوش و عقل کے ناخن لینے ہوں گے،ہمیں پشاور و چارسدہ کا درد محسوس کرنا ہوگا،اگر ہم بڈ بیئر اور مہران بیس کے حاداثات کو بھلا بیٹھے ہیں تو بقول قرآن کریم کے واقعی ہم گدھوں سے گے گزرے ہیں۔

اسی طرح دماغ،کان اور آنکھ رکھنے کے باوجود ہم ان حاداثات کے اصل حقائق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے سے آری ہیں تو ہم گدھوں سے گے گزرے ہیں، اس تمام تخریب کاری کے پیچھے ہمارا وہی دشمن کارفرما ہے جسکا وزیر اعظم بر ملا کہتا ہے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے ہم نے الگ کیا،جسکا وزیر اعظم ٹی وی پر بیٹھ کر کہتا ہیکہ میں پاکستان کے ساتھ وہ کرتا جو گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ کیا،یعنی پاکستانیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا،یہ سارے کارنامے اسی بزدل ملک کے ہیں جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سامنے آکر لڑ ے ،بلکہ کرائے کے ٹٹوئوں کو خرید خریداور افغانستان کو استعمال کرکے پاکستان میں آگ لگوا رہا ہے،جو ہم کلمہ گو مسلمانوں کو آپس میں ہی لڑوا کر اپنے مفادات سمیٹ رہا ہے،اگر ہم ان حقائق کو جانتے بوجھتے ان سے تہی دامن کے رویے پر قائم رہیں تو قرآن کی نظر میں ہم گدھوں سے بھی گئے گزرے ہوں گے۔
ہم نہیں جانتے اذانِ موسیٰ کا سلیقہ
وگرنہ وہ تو فرعون کے ہو بہو لگتا ہے

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر : سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009