خواب جو بکھر گیا

Pakistan

Pakistan

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
پاکستان میں ہر طرف امن و سکون ہے۔ کہیں خودکش حملے نہ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ نہ بھتہ خوری۔ غربت نامی کسی شے کاوجود تک نہیں، فی کَس آمدن آسمان کی رفعتوں کو چھوتی ہوئی۔ کرپشن کا نام ونشان نہیں، ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔کشکول توڑے مدت ہوچکی اور معاشی سرگرمیاں اپنے عروج پر۔ کہیں چوری ،ڈاکہ نہ بینک لوٹنے کی واردات۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان تو جنت نظیر ہے، بَس ایک ”کرکٹ” ہی باقی بچی ہے جو ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ اگر یہ بھی کسی صورت کنٹرول میں آ جائے تو دِلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانا دور نہیں۔ اسی لیے پوری قوم سب کچھ تیاگ کر”کرکٹ ڈینگی” میں مبتلاء ہو چکی۔

کسی زمانے میں ہاکی ہمارا قومی کھیل ہواکرتی تھی لیکن پھراُس کوایسا زوال آیاکہ ”اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر”۔ پھرہاکی کی جگہ کرکٹ نے لے کر اذہان وقلوب کوایسے مسخر کیاکہ ہم کرکٹ دیوانے ہوگئے ۔1992ء میںقومی ٹیم کے کپتان صاحب نے ورلڈکَپ کیا جیتا وہ ملک کی کپتانی کے دعویدار بھی بن بیٹھے ۔یہ کپتان صاحب ہی کی دین ہے کہ آجکل ہماری سیاست بھی کرکٹ زدہ ہوگئی ہے ۔اب ہم سیاست میںبھی وہی اصطلاحات استعمال کرتے ہیںجو کرکٹ میںاستعمال کی جاتی ہیں۔کوئی ایک بال سے تین وکٹیںاُڑانے کے چکرمیں ہے توکوئی ”کلین بورڈ” کرنے کاخواہش میںمبتلاء ۔کسی کو”فاسٹ بالنگ” کازعم توکوئی ”گُگلی” پہ نازاں۔ سوائے حکمرانوںکے سبھی کو”امپائر” کی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار ،حکمرانوںکو اِس لیے نہیں کہ فی الحال اُن کاگھر لوٹنے کاکوئی ارادہ نہیں۔ کرکٹ کی یہ اصطلاحات سنتے سنتے ہم خودبھی ”کرکٹ زدہ” ہوگئے ۔اب توکسی ضمنی انتخاب کا نتیجہ معلوم کرناہو تو ہم بھی پوچھتے ہیں ”کون آؤٹ ہوا؟۔

Pakistani Cricket Team

Pakistani Cricket Team

پچھلے تین چار ماہ سے پوری قوم کچھ زیادہ ہی ”کرکٹ ڈینگی” میں مبتلا ہو چکی۔اب یہی دیکھ لیںکہ جب کبھی بھارت سے میچ ہوتاہے توپوری قوم کاجذبہ وجنوں اپنے عروج پرہوتا ہے اوراِس جنوںکو دوآتشہ کرتاہے ہمارا الیکٹرانک میڈیا۔ ایک جنگ کاسا سماںہوتا ہے اور”ہم ہیںپاکستانی ،ہم تو جیتیں گے” جیسے نغموں سے دلوںکو گرمایا جاتاہے ۔ویسے تو حکمرانوں کا خزانہ ”بجلی” نامی نایاب شے سے تہی ،قوم روتی پیٹتی اور ”رَولا” ڈالتی سڑکوںپر نکل بھی آئے تو حکمرانوں کے کانوںپر جوںتک نہیںرینگتی لیکن جس دِن پاک بھارت میچ ہو ،حکومت اعلان کردیتی ہے کہ پورے ملک میںکہیں لوڈشیڈنگ نہیںہوگی ۔ہمیںبَس کرکٹ کہ یہی ایک ادابھاتی ہے کہ اُس دِن ”مَرجانی” لوڈشیڈنگ سے نجات مِل جاتی ہے۔ اِس کرکٹ ڈینگی نے پچھلے کئی ماہ سے پاکستانیوں کو”مخبوط الحواس” کررکھا ہے ۔پہلے بھارت کو”منتوں تَرلوں” سے منانے کی کوشش کی گئی ،ہمارے چیئرمین پی سی بی اورچڑیا والے صاحب بھارت کومنانے انڈیا جا پہنچے لیکن پھر ہوایہ کہ ”بڑے بے آبروہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے” ۔چیئرمین پی سی بی نے بہرحال حوصلہ نہ ہارااور آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ انڈیاکی طرف سے جواب کاانتظار ہے۔

جب بھارت نے ٹَکاسا جواب دے دیا تو ہماری غیرت بھی جاگ اُٹھی اورہم نے بھی کہہ دیاکہ بھارت میںہونے والے T-20 ورلڈکپ میں شرکت کاابھی فیصلہ نہیںکیا ۔ پھراچانک ہماری بھارت سے محبت جاگ اُٹھی اور ہم نے سب کچھ بھُلاکے بھارت یاتراکی ٹھان لی ۔اُس وقت ہمارے کپتان شاہدآفریدی نے دَبے لفظوں میںورلڈکپ جیتنے کے بارے میںجو کچھ کہااُس کامفہوم کچھ یوںبنتا تھاکہ ”ایں خیال است ومحال است وجنوں” یعنی ایساسوچنا بھی احمقوںکی جنت میںبسنے کے مترادف ہے لیکن ہم نے تواپنے خواب سجالیے تھے کیونکہ ہم ٹھہرے ”کرکٹ دیوانے۔ T-20 ورلڈ کپ کا پہلا معرکہ بنگلہ دیش کے ساتھ ہوا جسے ہم نے آسانی سے سَرکر لیا ۔بنگلہ دیش سے فتح کے بعدتوہمیں یقین ہوچلاکہ ورلڈکپ ”آوے ای آوے”۔ ہم نے تومنصوبہ بھی باندھ لیاکہ جب شاہدآفریدی ورلڈکپ لے کرپاکستان آئے گاتو سب سے پہلے ہم ہی ”وزیرِاعظم شاہدآفریدی” کانعرہ بلندکریں گے کیونکہ ہمیںتو اب کرکٹ کے کپتانوںکو ہی پاکستان کاوزیرِاعظم بنتادیکھنے کی خواہش سی ہوچلی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ خواہش ابھی تک ناتمام ہے ،لیکن مایوسی چونکہ کفرہے اِس لیے ہم بھی مایوس نہیںاور ہمیںیقین کہ ایک خان نہ سہی کوئی دوسرا خان توضرور ورلڈکپ جیت کرہمارا وزیرِاعظم بنے گا۔اسی لیے ہم نے شاہدآفریدی سے اُمیدیں باندھ لیں کیونکہ وہ بھی خان ہے ۔چلیں شاہدخاں آفریدی نہ سہی ،شرجیل خاں تو ہے۔

T20 World Cup

T20 World Cup

بھارت کے ساتھ ”جوڑ” پڑنے سے پانچ چھ دِن پہلے پورے ملک میں کرکٹ ڈینگی اپنے عروج پرپہنچ گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کوسوائے کرکٹ کے کچھ دکھائی دیتاتھا نہ سجھائی ۔آخرکاروہ دِن آن پہنچاجس کاہمیں شدت سے انتظار تھا۔ عمران خاں، وسیم اکرم اورکچھ دوسرے کرکٹ سٹارز پہلے ہی ٹیم کاحوصلہ بڑھانے اوراُسے ”ٹِپس” دینے بھارت پہنچ چکے تھے ۔میچ شروع ہواتو دِلوںکی دھڑکنیں تیزہونا شروع ہوگئیں ،جب ختم ہواتو اِن دھڑکنوںمیں غصّہ اورشرمندگی بھی شامل ہوگئی کیونکہ ہم میچ ہارچکے تھے۔ اِس قوم میںایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ سانحات کوبھلا دینے میںاپنا کوئی ثانی نہیںرکھتی۔ ہم تو ”سکوتِ ڈھاکہ” جیساسانحہ بھی ”ڈکار” چکے پھربھلا بھارت سے T-20 شکست کی کیاحیثیت۔ اگلے ہی دِن ہم ”ہے جذبہ، جنوںتو ہمت نہ ہار” کہتے ہوئے ایک دفعہ پھراِس اُمیدپر میدان میںکود پڑے کہ شکست نیوزی لینڈکا مقدر بن چکی۔لیکن ہوایہ کہ نیوزی لینڈنے ہمارا”مَکوٹھَپ” دیااور ہمارے سارے خواب بکھر گئے۔

حیرت ہے اِس قوم پر کہ یہ صرف ایک دِن کے وقفے کے بعداپنے” بکھرے خوابوں” کوسمیٹتی نظرآئی۔ اب کی بارسوچوں کامحور یہ تھاکہ اگرپاکستان آسٹریلیاکو شکست دے دے اورآسٹریلیا بھارت کوتو پھرہم سیمی فائنل میںپہنچ سکتے ہیں۔ جوازیہ تراشے جانے لگے کہ 1992ء کے ورلڈکپ میںبھی پاکستانی ٹیم کوایسی ہی صورتِ حال کاسامنا تھا، پھربھی ہم ورلڈکپ لے اُڑے۔اگر تب ایساممکن ہو گیا تواب کیوں نہیں ؟۔ 25 مارچ کو قوم ایک دفعہ پھرٹی وی سکرینوںکے ساتھ جُڑی بیٹھی تھی لیکن ہوایہ کہ ”خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا”۔ ہزیمت ایک دفعہ پھر پاکستانی ٹیم کے حصّے میں آئی اوروہ چاروں شانے چِت۔ورلڈکپ جیتنے کاخواب بکھرگیالیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ قوم حوصلہ ہار گئی۔

ہمارا جذبہ و جنوں اب بھی جواں ہے ،یہ الگ بات کہ اب اُس کا رُخ کرکٹ ٹیم اور کرکٹ بورڈ کی طرف ہو گیا ہے ۔ہر کوئی مُنہ سے آگ اُگل رہا ہے اوراِس میں ہمارے سیاستدان بھی ”حصّہ بقدرِجُثہ” ڈال رہے ہیں۔ہمیں خوشی ہے تواِس بات کی کہ پاکستانی ٹیم نے ہارکر تحریکِ انصاف، پیپلزپارٹی اورنواز لیگ کوکم ازکم ایک نکتے پرتو ایک صفحے پرکر دیا ۔سبھی کہہ رہے ہیں کہ کرکٹ ٹیم ہی نہیں کرکٹ بورڈکی بھی چھٹی کروادی جائے ۔۔۔۔ حرفِ آخریہ کہ اگر پوری قوم اسی جذبہ وجنوں کے ساتھ ملک وملّت کی ترقی میں جُت جائے تو اندازہ خودہی کر لیجیے کہ وہ کون سا ہمالیہ ہے جسے ہم سَر نہیں کر سکتے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر