زلزلہ ۔۔۔۔زمین کی انگڑائی ،لے آئی بڑی تباہی

Balochistan Earthquake

Balochistan Earthquake

تحریر: علامہ صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
کون سی ماں جانتی تھی کہ وہ اپنے لختِ جگر کو ہمیشہ کے لیے اپنی ہی مامتا کے ہاتھوں سے رخصت کر رہی ہے کون سی اولاد جانتی تھی کہ وہ اپنے شفیق ماں باپ کو آخری مرتبہ دیکھ رہی ہے کون جانتا تھا کہ یہ سفر ان کی آخری آرام گاہ کا ہے پھر نہ پوچھیے کیا قیامت ٹوٹی ، آنِ واحد میں ہنستے بستے گلشن اُجاڑ میں تبدیل ہو گئے، مسکراتے چہرے پژمردہ ہو گئے ، ننھی کلیاں مُر جھا گئیں ، موت نے زندگی پر چند سیکنڈ میں فتح حاصل کرلی،ہر طرف زمین اس لمحے موت اُگل رہی تھی قیامت کی ایک جھلک ۔۔۔۔

ایک دل ہلا دینے والا منظر ۔۔۔۔۔ہر طرف موت رقصاں تھی ،زندگی ٹھہر گئی ، سانسیں رک گئیں ،دھڑکنیں منجمد ہو گئیں اور پلک جھپکتے ہی پشاور ، دیر، سوات گلگت ، بلتستان ، آزاد کشمیر ، چترال ، باجوڑ ،ڈیرہ غازی خان اور ان سے ملحقہ علاقے ان ریت کے گھروندوں کی مانند ہو گئے جو کہ ساحل پر کسی نے بڑی چاہتوں اور حسرتوں کے ساتھ بنائے ہوں اور ہوا کا ایک ہی جھونکا ان کو گرا گیا ہو ، سینکڑوں زندگیاں ختم ہو گئیں ، ہر طرف دھاڑیں ، چیخ و پکار ، آہیں ، سسکیاں اور ماتم تھا گھر بہ گھر ، قصبہ قصبہ ،بستی بہ بستی ، گائوں گائوں ، شہر بہ شہر دل ہلا دینے والی چیخیں تھیں پاکستان کی تاریخ کا 8اکتوبر 2005ء کے بعد شدید ترین زلزلہ جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اس ہولناک تباہی کے بعد پاکستانی قوم کا جذبہ بھی قابل تعریف ہے اور ”جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ”کے مصداق اس قومی جذبے نے سب کو حیران کر دیا۔

رسول رحمت ۖ نے فرمایا ”مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو بیزاری اور تکلیف میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتا ہے ”پاکستانی قوم کے با ہمت جوانوں کے پاس کوئی مشینری تو نہ تھی مگر وہ اپنے آہنی جذبوں کی بدولت ہاتھوں سے ملبہ ہٹاتے رہے فلاحی اور دینی تنظیموں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنا ”دنوں کا چین ” اور راتوں کا سُکھ ”زلزلہ زدگان پر قربان کر دیا۔۔۔عام حالات میں ہر انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا رہتا ہے مگر اس موقع پر ہسپتالوں میں تڑپتی ، سسکتی اور بلکتی زخموں سے کراہتی انسانیت کے لیے خون دینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں ،ڈاکٹرز حقیقی معنوں میں ”دینار پیشہ ” کی بجائے ”ایثار پیشہ ” اور مسیحائی کا کردار نبھاتے نظر آئے ، پاکستانی فوج کا کردار بھی شاندار ہے کمانڈر جنرل راحیل شریف ریسکیو کام کی خود نگرانی کرتے رہے ، سچ کہا کسی نے کہ ”اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے ”۔۔۔۔۔

Balochistan Pakistan

Balochistan Pakistan

۔وطن عزیز کے خوفناک زلزلے نے بکھری ہوئی قوم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو دیا ، شیعہ ، سنی ، دیو بندی ، بریلوی ، اہلحدیث ، وہابی کا تصور ختم کر کے قوم کا ہر فرد ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر ”کا عملی نمونہ پیش کر رہا تھا ، بھائی چارے امداد باہمی اور بے لوث خدمت کے جذبات نے قوم کو ”محمود و ایاز ” کی طرح ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ،آفرین ہے 6یتیم بچوں کی اس بیوہ ماں پر جس نے اپنے گھر کی آخری چھت 70ہزار روپے میں بیچ کر اپنا حصہ ڈالا اور خوب ڈالا اور خود کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کر کے دلی سکون و اطمینان محسوس کیا ، فخر ہے ایسی بہن پر جس نے شادی کے دوسرے دن اپنا تمام زیور زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے فلاحی تنظیم کے حوالے کر دیا ، بجا طور پر فخر ہے قوم کے اس جانثار محنت کش مزدور پر جس نے صبح سے شام تک کی کل کمائی اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کے نام کردی ، آفرین ہے اس بوڑھے کسان پر جو اپنی ساری جمع پونجی لے کر حاضر ہو گیا ، فخر ہے قوم کے ایسے سپوتوں پر جو اپنے لہو کا آخری قطرہ دینے کے لیے کمر بستہ نظر آئے ، قوم کا ہر پیرو جواں ”خیر الناس من ینفع الناس ”کے آفاقی پیغام کی عملی تفسیر نظر آیا ، خدمت انسانیت کے سانچے میں ڈھلے جذبات کا سمندر موجزن نظر آیا۔

زلزلے کیوں آتے ہیں ، ان کے آنے کی وجوہات کیا ہیں ۔۔۔؟ زمین کتنی پلیٹس پر مشتمل ہے اور سائنس دانوں کے مطابق کتنی پلیٹوں کے ٹکرانے سے زمین میں ہلچل پیدا ہوتی ہے اس پر ماہرین ِ ارضیات اور سائنسدانوں کی آراء و تبصرے ہم پڑھ چکے ہیں سائنس دان لا کھ تبصرے کریں ماہرین ارضیات کروڑ ہا پیش گوئیاں کریں اور ماہرین ِ فلکیات لاکھ چہ مگوئیاں کریں کہ زلزلوں کے آنے کی مختلف وجو ہات ہیں مگر جب ہم بحیثیت مسلمان اپنی آفاقی اور قدیم و جدید علوم کی حامل کتاب قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زلزلے قوموں کو مخصوص حالات میں جھنجھوڑنے کے لیے آتے ہیں اور بعض اوقات پہلی کیفیت سے بھی بڑھ کر یہ اللہ تعالیٰ کی وعید ہوتے ہیں اور ہمارے جو موجودہ حالات ہیں ان کے متعلق تو قرآن پاک کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ ”کیا ابھی اہلِ ایمان پر وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد میں پگھل جائیں ‘۔

‘میرے رب تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑا ہے اللہ تعالیٰ نے مکمل تباہی سے پہلے ہمیں خبردار اور بیدار کرنے کے لیے یہ جھٹکے کیوں دیے ہیں رب تعالیٰ رحمن و رحیم بھی ہے آخر وہ ہم سے کیوں ناراض ہے ؟ قرآن پاک میں ایسی آزمائش سے بھی ڈرایا گیا ہے جس کا شکار صرف ظالم ہی نہیں ہوں گے خدائے قہار کا جب فیصلہ آتا ہے تو پھر اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے رسولِ رحمت ۖ نے اس زلزلہ سمیت مختلف زلزلوں سے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا مگر ایک ہم ہیں کہ ہم نے اپنے کانوں پر کاگ چڑھا رکھے ہیں آنکھوں پر حرص و ہوس کی پٹی باندھ رکھی ہے ہمیں نہ سُجھائی دیتا ہے ، نہ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے جامع ترمذی کی حدیث اور اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ ہیں فر مایا ”جب تم دیکھو کہ مال ِ غنیمت یعنی قومی دولت کو ذاتی خزانہ سمجھا جانے لگا ہے امانت کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا جا رہا ہے زکوٰة کو ٹیکس قرار دیا جا رہا ہے علم ِ دین کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے مرد عورت کی اطاعت کرنے لگا ہے ۔

Disobedience

Disobedience

بیٹا بیوی کے کہنے پر ماں کی نا فرمانی کرنے لگا ہے لوگ اپنے باپ پر اپنے دوستوں کو تر جیح دیتے ہیں ، مساجد میں زور زور سے باتیں ہونے لگیں ، قوم کا بد ترین شخص قوم کا سردار ہے لوگوں کے امور کا نگران کینہ صفت اور ذلیل شخص کو کر دیا گیا ہے لوگ کسی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کرتے ہیں ، گانے والی عورتیں عام ہو گئیں ہیں آلاتِ موسیقی گھر گھر پہنچ گئے ہیں شرابیں عام پی جانے لگی ہیں لوگ گزرے ہوئے لوگوں کو قدامت پرست سمجھ کر ان پر لعن طعن کرتے ہیں تو پھر انتظار کرو تندو تیز ہوائوں کا ،ہیبت ناک زلزلوں کا ، زمین دھنسا دینے والے جھٹکوں کا ،پتھروں کی بارش کا اور صورتیں مسخ کر دینے والے عذاب کا ” گویا کہ عذابوں کی ایک لڑی ٹوٹ گئی ہے اور پے در پے عذاب آرہے ہیں ، روشن خیال اور اعتدال پسندی کے موجد کس منہ سے شافع محشر ۖ سے شفاعت کی بھیک مانگیں گے انسان اتنا کمزور ہے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا کجا کہ کروڑوں انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا جائے ۔۔۔

۔ا ہلِ مدین پر اس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن ، بد معاملہ اور بے ایمان ہو گئی کم تولنا اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہو گیا کہ جب اِن کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کی بجائے وہ اُلٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے اور اُن کی سمجھ میں نہ آتا کہ اُن میں کوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو ،وہ اپنی بد کاریوں کو بُرا نہ سمجھتے بلکہ جو اِن حرکات کو بُرا سمجھتا اُنہیں بر سر ِ غلط اور لائق سرزنش خیال کرتے قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اور ہم نے مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم ،تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل آچکی ہے توتم ناپ تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا اِن چیزوں میں نقصان نہ کیا کرو اور روئے زمین پر بعد اس کے کہ اس کی درستگی کر دی گئی ۔

فساد مت پھیلائو یہ تمہارے لیے نافع ہے ”اور اسی طرح کا بیان سورة حجر اور سورة شعراء میں بھی آیا ہے ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ نا فرمانی اور سر کشی کی پاداش میں قوم شعیب کو دو قسم کے عذاب نے آگھیرا ایک زلزلہ کا عذاب اور دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو یک بیک ایک ہولناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ صبح دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کُل کے کُل سرکش اور مغرور آج گھٹنوں کے بل اوندھے جھُلسے ہوئے پڑے ہیں سورة العنکبوت میں ارشاد فرمایا ”پھر آپکڑا اِن کو زلزلے نے پس صبح کو رہ گئے اپنے اپنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے ”سورة الشعراء میں فرمایا ”پھر اُنہوں نے شعیب علیہ السلام کو جھُٹلایا پس آپکڑا اُن کو بادل والے عذاب نے جس میں آگ تھی بیشک وہ بڑے ہولناک دن کا عذاب تھا ۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

”رسول رحمت ۖ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہگاریاں شروع ہوئیں تو اِن کے علماء نے اُنہیں روکا لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آرہے تو اُنہوں نے اُنہیں الگ نہ کیا بلکہ اُنہیں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے ،اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل پھیر دیے اور حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی لعنت فرمائی کیونکہ وہ نا فرمان اور ظالم تھے اس بیان کے بعد رسولِ رحمت ۖتکیہ لگائے ہوئے بیٹھتے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں خدا کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو بُرے کاموں سے روکو اور شریعت کی پابندی پر لا ڈالو ”(مسند احمد )۔

ابو دائود کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی بُرائی بنی اسرائیل میں یہی داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اُسے روکتا اس سے کہتا کہ اے اللہ سے ڈرو اور اُس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے لیکن جب دوسرے روز وہ نہ چھوڑتا تو یہ اُس سے کنارہ کش نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا اس وجہ سے سب میں ہی سنگ دلی آگئی پھر آپ ۖ نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ”واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم دو برائیوں سے روکو ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اُسے تنگ کرو کہ حق پر آجائے ”ترمذی اور اِبنِ ماجہ میں بھی حدیث موجود ہے ابو دائود وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھہ کہا گیا ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے دل بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مار دے گا اور تم پر بھی اپنی پھٹکار نازل فر مائے گا جیسی اُن پر نازل ہوئی ”۔

Allah

Allah

لوگوں کا یہ سمجھنا بالکل غلط ہو گا کہ ہلاک ہونے والے بڑے ”گناہگار ” اور ہم بڑے ”نیکو کار ” ہیں ہمیں اپنے معاملات کو خود ہی درست کر لینا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کتنے پارسا ہیں ہمیں آج سے اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے اللہ تعالیٰ نے واقعی معاملہ اگر اپنے ہاتھ میں لے لیا تو پھر کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی ، اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اب کی بار رسولِ رحمت ۖ سے بھی رابطہ کرتے ہیں اور ان کے حضور اپنی حالت زار پیش کرتے ہیں اور شفاعت کی بھیک مانگتے ہیں شاید اللہ تعالیٰ ہمارے ”کاسہ دامن ” میں رحمت کی بھیک ڈال دے ۔

یا رسول اللہ اُنظر حالنَا
ےَا حَبیب ُ اللہ اِسمع قَا لَنَا
اس موقع پر آغا شورش کاشمیری کی لکھی گئی نعت کے دو بند بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
صلی اللہ علیک وسلم
ہم ہیں تیرے نام کے لیوا
اے دھرتی کے پانی دیوا
یہ دھرتی ہے برہم برہم
صلی اللہ علیک وسلم
دیکھ تیری اُمت کی نبضیں
ڈوب چکی ہیں ڈوب رہی ہیں
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
صلی اللہ علیک وسلم
آخر میں قُدسی کی مشہور نعت کے دو شعر بھی ملاحظہ فرمائیں
ماہمہ تشنہ لبانیم و توئی آبِ حیات
لطف فرما کہ زحد می گز رد تشنہ لبی
سیدی انتَ حبیبی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قُدسی پئے درماں طلبی

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: علامہ صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
چیئر مین ایوان ِ اتحاد پاکستان
،مرکزی خطیب جامع مسجد مدینہ شریف اعوان ٹائون لاہور

03314403420