آخر یہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔

Earthquake

Earthquake

تحریر: سید بخشی وقار ہاشمی
آج کل زلزلے بہت عام ہو چکے ہیں، ہمیشہ ہم دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلے کی خبریں سنتے رہتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ہیٹی میں 12 جنوری 2010 میں آنے والے زلزلے میں دولاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، چلی میں 27 فروری 2010 میں آنے والے زلزلے میں سات سو آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے پہلے انڈونیشیا میں 26 دسمبر 2004 میں جو زلزلہ آیا تھا اس سے پیدا ہونے والی سونامی میں ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جس سے سری لنکا، بھارت، تھائی لینڈ اور مالدیپ، یہ سارے ممالک متاثر ہوئے تھے .
اور آج 26.10.2015 کی صبح پاکستان میں زبردست زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے، کافی لوگ زخمی ہوئے ہیں، زلزلے کے یہ جھٹکے بھارت،افغانستان میں بھی محسوس کیے گیے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات کو شرعی نقظہ نظر سے دیکھیں اور ملکوں اور قوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں کیوں کہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اس کی یادد ہانی ہوتی رہتی ہے،ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ آفات، تباہیوں، طوفان اور زلزلوں سے عبرت حاصل کریں، کیوں کہ یہ چیزیں انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں الٹی میٹم کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں تاکہ انسان سدھر جائے، سنبھل جائےاور اپنے مقصد حیات کی تکمیل میں لگ جائے۔

افسوس کے ہم اس طرح کی خبریں آئے دن سنتے رہتے ہیں لیکن وہ ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں پیداکر پاتیں،اس میں زیادہ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہوتا ہے، ان آفتوں کا کیا پیغام ہے انہیں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا، آئیے ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پیش آنے پر اللہ والوں کا کیا معمول ہوا کرتا تھا۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث بیان کی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں زمین لرز نے لگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا: آرام سے! ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہارارب تم پر اپنی خفگی ظاہر کرتا ہے کہ تم اس کوراضی کرو، اس لیے اس کو راضی کرلو۔ مسندامام احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے خطبہ دیا: لوگو! یہ کیاہے؟ کتنی جلد تم نے نئے کام شروع کرلیے، دیکھو اگر یہ دو بارہ ہوا تو میں یہاں تمہارے ساتھ رہنے کا نہیں۔

امام ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب العقوبات میں بیان کیا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے ساتھی نے سوال کیا: اے ماں! زلزلے اور اس کی حکمت وسبب سے متعلق کچھ بتا یئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب دنیا والے زنا کوحلال سمجھ لیں گے، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، گانے باجے کا عام رواج ہو جائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ، پھر اگر لوگ توبہ کرلیے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا: اے ام المومنین! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے؟ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں! بلکہ مومنوں کے لیے نصیحت، ان کے لیے باعث رحمت وبرکت ہوتا اور کافروں کے لیے سزا عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے۔(العقوبات لا بن ابی الدنیا ص : 29 ) بخاری اور مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دیئے جانے، صورتوں کو مسخ کیے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنهلِك وفينا الصالحون ؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کردیئے جائیں گے؟۔

Sins

Sins

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم، إذا كثُر الخبثُ (صحيح البخاري 7059 صحيح مسلم 2880 ) ہاں! جب فسق وفجور عام ہو جائے گا تو ایسا ہوگا”۔ پیارے بھائیو اور بہنو! ان احادیث و آثار سے کیا پتہ چلا، بات واضح ہے کہ زلزلے ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں، جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور باکسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کی اجازت دے دیا کرتا ہے”۔

زلزلوں کی کثرت اصل میں قرب قیامت کی نشانی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ . (صحیح البخاری: 1036) قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔ آیئے یہ حدیث بھی سن لیجیے سنن ابن ماجہ کتاب لفتن کی صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جماعت مہاجرین ! پانچ چیزیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں تمہارے دور میں وہ پیش آجائیں:۔

لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم (الترغیب والترھیب للمنذری: 3/29)۔

Decision

Decision

“فحش کاری جب کسی قوم میں عام ہوجائے یہاں تک کہ لوگ کھلا کر اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ضرور ان میں ایسی وبائیں اور ایسے روگ پیدا ہوں گے جن کا ان کی پہلی نسلوں میں کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے تو خشک سالی آئے گی، فراوانی اشیاء کی عدم دستیابی ہوگی اور حکمراں طبقے کا ستم سہنا ہوگا، جب بھی لوگوں میں زکاۃ نہ دینے کا رجحان پھیلے گا، تو ان کو آسمان سے پانی ملنا بند ہو جائے گا، پرند و چرند نہ ہوں تو ان کو بارش ہی نہ ملے ، جب بھی لوگ اللہ اور رسول کی عہد شکنی کریں گے اللہ ان پر باہر سے دشمنوں کو مسلط کردے گا جو ان کے ہاتھ میں پڑی چیز سے اپنے حصہ کا بھتہ لیں گے ،جب ان کے حکمراں وقائد ین کتاب اللہ کی رو سے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ کے اتارے ہوئے احکام اخذ نہ کریں گے تو اللہ ان کے آپس میں بھی پھوٹ پڑجانے دے گا”۔

ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن کریم میں مردود اقوام کے قصے بیان کیے ہیں، قوم نوح، قوم شعیب، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، بنو اسرائیل، اور قارون وہامان کے قصے قرآن کریم میں جگہ جگہ ملتے ہیں، آخر انہیں تباہ وبرباد کیوں کیا گیا، پھر ان کی تباہی کے قصوں کو قرآن میں کیوں جگہ دی گئی؟ اسی لیے ناکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں۔

اس لیے ان زلزلوں سے ہم سبق حاصل کریں، اپنے احوال کو سدھار لیں، ابھی موقع ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ کیا خبر کہ آج اگر ہمارے بھائیوں کو نقصان پہنچا ہے تو کل ہمیں بھی نقصان پہنچے، تو پھر دیر کس بات کی۔ سچی توبہ کیجیے، آخرت کی فکر کیجیے، اللہ کے احکام کو اپنی زندگی میں لاگو کیجیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Syed Bakshi Waqar Hashmi

Syed Bakshi Waqar Hashmi

دعا گو : سید بخشی وقار ہاشمی