معاشی راہداری یا سرمایہ داری

Economic Corridor

Economic Corridor

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
رولا رضائی دا اے یا مال کمائی دا اے، دنیا بھر کے تمام حکمرانوں میں سے واحد اور اکلوتے “صنعتکار حکمران “شریف برادران ہر مسئلہ کو سرمایہ کی عینک سے دیکھتے ہیں یہ ان کی مجبوری ہے کہ ان کے بزرگ تو ہندوستانی “جاتی امرائ”میں چک کے سیپی دار تھے۔

چک کے لوہار،ترکھان،موچی ،نائی وغیرہ کو توزمیندارہرششماہی فصلوں پر فصلانہ ہی دیا کرتے ہیں۔ اور انھیں پاکستان راس آگیا اور یہاں آکر لوہا کے صنعتکار بن بیٹھے۔اور مزدروں کا اس طرح خون چوسا کہ وہ محاورہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ کہ خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں تو بھی کانوں کان خبر نہ ہواب پاک چائنہ معاشی راہداری کا مسئلہ کیا ہے ؟کیوں ہر صوبہ میں شور و غوغا ہے کہ راستہ طے نہیں پا رہا۔

اس لیے کہ ان کے عزیز و اقارب و دوست احباب کروڑ سے کسی صورت کم نہ کمانے والے دیہاڑی دار ہیں جس دن کروڑ نہ بچے تو یہ کہتے ہیں کہ کاروبار “مندا”رہا ہے اور نقصان ہو گیا ہے۔یعنی کمانا کروڑ تھا اور کمایا 75لاکھ ۔یعنی 25لاکھ کا نقصان ہو گیا ہے انہوں نے خود ہی گدھوں کے ذبح کرنے کی طرح راہداری کا مسئلہ کھڑا کر ڈالا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ یہ گرانڈ سڑک کدھر سے کدھر کو جائے گی تاکہ رائے ونڈ کی طرح اسکے اردگردکی زمینیں کوڑیوں کے بھائو خرید سکیں اور پھر لاکھوں روپے مرلہ فروخت کرسکیں ۔رائے ونڈ والی زمینیں بھی انہوںنے ایسے ہی لوگوں سے اونے پونے داموں قبضہ کی تھیں بعد میں اسے ٹیکس فری زون قرار دے ڈالاصنعتیں لگنا شروع ہو گئیں اور اربوں نہیں کھربوں کما لیے۔

China-Pakistan Economic Corridor

China-Pakistan Economic Corridor

اب چائنہ تو مخلص دوست ہو کر عوام کی غربت دور کرنے کے لیے ہمدردی کر رہا ہے مگر یہ ٹھہرے سود خور سرمایہ پرست اژدھے یہ اس کی اصل جگہ بتائے بغیر اسکی ارد گرد کی تمام زمینوں پر قابض ہوکرپھر سانپ کی پٹاری کھولیں گے کہ یہ رہا سانپ اور اس راستہ پر سفر کرے گا تاکہ اسکے قرب و جوارمیں انہی کی ملکیہ زمینوں پر کارخانے نصب ہوں اور کوئی ہوٹل دوکان بھی بنے تو سڑک کے اردگرد 15ہزار روپے مرلہ خریدی گئی زمین 5لاکھ سے کم فی مرلہ نہ بکے اور منافع کئی ہزاروں گنا وصول ہوان کے تحت الشعورمیںیہ کہانی اٹکی ہوئی ہے کہ لودھراں کے ضمنی الیکشن میں ترین کی جیت کی طرح اگلے انتخابات میں روپیہ پیسہ کا ہی مقابلہ ہو گا۔اور جس کے پاس نوٹوں کے ڈھیر ہوںگے وہی آسانی سے غریب عوامی ووٹوں کے ضمیرکو خرید سکے گا۔اسلئے شریفان رقم اینٹھنے میں زرداری جیسے شخص کو بھی ہر قیمت پر پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہیں اور اس کے تمام حواریوں کو ملا کر بھی اپنا سرمایہ سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات ہر صورت سویپ کر سکیں۔

عمران خان بھی تمام نو دولتیوں جاگیرداروں وڈیروں کو جمع کرکے ٹکٹیں دے کرسیاسی دنگل میں اتارنا چاہتے ہیںتاکہ رنگ چوکھا آوے اور ووٹوں کی بند ربانٹ ہی نہ ہوبلکہ صحیح ریٹ لگا کرووٹ لے سکیں اور شریفوں کو ٹھینگا دکھا یا جاسکے مگر”تدبیر کندبندہ تقدیر زند خندہ “کہ انسان تدبیریںبنا اور اپنی پلاننگ کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے۔دراصل زمین پر حکمرانی صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہی ہے وہ جسے چاہے حکمران رکھے وہ شہنشاہ کو گدا کرڈالے اور گدائوں) فقیروں (کوشہنشاہ بنا ڈالے کہ حکم صرف اسی کا ہی چلتا ہے آخر شہنشاہ ایران فرعون نمرود شدادکیا ہوئے۔

زمین پر خدائی کے دعوے کرنے والوں کو کیا حشر ہوا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ سکندر گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے اور کفن کی تو جیبیں بھی نہیں ہوتیں حکمران تو ملکی خزانوں کو لوٹنے کے بعدچائنہ کی امدادیں بھی ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں چائنہ خواہ یہاں پر خود ہی سرمایہ خرچ کرلے جواء بہر حال اسی کا ہوتا ہے جس کی جگہ ہو۔ہم تو سعودی عرب جیسے مخلص دوست کے ساتھ بھی آنکھ مچولی کھیلتے ہیں کہ مکہ مدینہ اور خانہ کعبہ کی محبت جتلا کر زبانی جمع خرچ کرکے رقوم لے کر ڈکار جاتے ہیںاور چند سینکڑے فوج بھجوا دیتے ہیں اور عملاً کچھ نہیں کرتے ۔دوسری طرف فرینڈلی اپوزیشن کے راہنما ئوں کو شور مچانے کا اشارہ کردیتے ہیں تاکہ پتہ ہی نہ چلے کہ ہماری دراصل خارجہ پالیسی ہے کیا؟دراصل ہم نہ شیعوں میں ہیں نہ ھئیوں میںایران بھی تو ہمسایہ ملک ہے ہمیں ایران عرب اختلاف کو مٹانے کے لیے بطور مسلم برادراپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پورے عالم اسلام میں فرقہ واریت کی آگ نہ بھڑک اٹھے اگر ہم نے بشمول دیگر غیر عرب مسلمان ممالک اپنا آج کردار ادا نہ کیا تو فرقہ واریت کی جنگ کے شعلے عراق اورشام کی طرح ہمیں بھی بھسم کرڈالیں گے۔کہ ہم نے اپنی کو تاہیوں سے اور اسلام دشمنوں نے بھی فرقہ وارانہ اختلاف کو ہمارے ہاں پرورش کر رکھا ہے۔

Sharif Brothers

Sharif Brothers

ہمارے حکمران ہر صورت ایسے اختلافات کو زندہ رکھ کر اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔مگر بھاڑمیں پڑے سونا جو کانوں کو کھائے ہمیں ایسے صنعتکار سود خور حکمران نہیں چاہئیں جو صرف مودی کا استقبال بھی ذاتی مفادات کے تحت ہی کریں کہ کبھی بھاگ کر پناہ لینی پڑی تو ادھر ہی جا چھپیں گے۔کہ اب توجاتی امرا ء سے بھی اڑکر گھنٹے میں ادھر جا اتریں گے ۔مگر قدرت زلزلوں کے ذریعے انہیں مسلسل انتباہ کر رہی ہے کہ باز آجائو مگر انکے کان تک جوں تک نہیںرینگتی خانہ خدا میں بیٹھ کر اسلامی نظام کا وعدہ کرکے مقتدر ہوجانے کے بعدسودی نظام کے خاتمے پر اعلیٰ عدلیہ سے سٹے آرڈر جاری کروانے اور وعدہ کرکے مکر جانے پرخدائی عذاب ان پر لازماً آئے گابھوک سے خود کشیاں اور پاکستان بننے پر قربانیاںضرور رنگ لائیں گی آئندہ انتخابات میں جب گلی کوچوں گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوں گی تو ان کو دن کو تارے نظر آنا شروع ہو جائیں گے اور ان کا جمع کردہ ڈھیروں سرمایہ راکھ کا ڈھیرثابت ہو گا مسلمان ایک سوراخ سے دوسری دفعہ ڈسا نہیں جاسکتا ۔مگر یہاں تو عوام دو نہیں بلکہ تین دفعہ ایک ہی سانپ کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ستر سال سے جو عوام دھوکے کھارہے ہیں انکے بپھرے ہوئے سیلاب کا بند لازماً 2018کے انتخابات میں ٹوٹ جائے گا اور یہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔

زرداری ،عمرانی اور شریفوں کے نعرے سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں عوام تو ہندو بنیوں نے جس گائے کے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والوں کی قتل و غارت گری شروع کر رکھی ہے اسی گائے کے نشان پر مہریں لگا کر اللہ کی کبریائی کی تحریک کو کامیاب بنانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں تاکہ تمام ملکی مسائل مہنگائی ،بیروزگاری ،دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو اور بنیادی ضروریات کی اشیاء بجلی صاف پانی گیس علاج تعلیم مفت مہیا ہو سکے۔

مزدور و محنت کش کم ازکم1600 روپے دیہاڑی پاسکے اور اسکا ملوں اور کاروباروں کے منافع میں 10فیصد حصہ بھی ہوغریبوں کو اللہ اکبر ہو ٹلوں سے مفت کھانا ملے،غریبوںکو مفت اور دیگر مسافروں کو1/3قیمت پر سفر اور بار برداری کی سہولت مہیا ہو۔کھانے کی تمام ضروری اشیاء 5گناء کم قیمت پر اور ہمہ قسم تیل 3گناہ کم قیمت پر مل سکے اقلیتوں کو مساوی حقوق میسر ہوں مذہبی رواداری ہو ۔فرقہ واریت کے سانپ کا سر کچلا جائے یاد رکھیں کہ بھارت سے تعلقات معمول پر آجائیں تو حکمرانوں کے الیکشنی نعرے ختم ہوسکتے ہیں اسلئے خوامخواہ جنگجویانہ صورتحال برقرار رکھنے میں ہی ان کے اقتداری طوطے کی جان ہے۔

DR IHSAN BARI

DR IHSAN BARI

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری