اقتصادی سماجی اور سیاسی امن

Poverty

Poverty

تحریر: حبیب الرحمن چنگوانی
وہ معاشرے اور ممالک جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان اقتصادی بعد پایا جاتا ہے وہاں امیروں اور غریبوں میں تشدد اور پھوٹ پڑنے کے امکان غالب ہیں۔ جب کچھ لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے بچے رات کو بھوکے سوتے ہیں اور ان کے ہمسائے محلوں میں رہتے ہیں تو دولت اور وسائل کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم ان میں غصے کا موجب بنتی ہے۔ جب لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات: خوراک، رہائش، تعلیم، صحت اور ملازمت سے محروم رہیں تو وہ لوگ امید عزتِ نفس اور وقار کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے اور وہ ایسے غیر منصفانہ نظام کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں جس نے ان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔ وہ ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کو سماجی اقتصادی اور سیاسی انصاف اور امن دے سکے۔ بہت سے اشتراکی ماہرینِ نفسیات و عمرانیات کا خیال ہے کہ امن کا اقتصادی حالات سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا کو پرامن بنانے کے لیے ہمیں غربت سے لڑنا ہوگا۔

بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس ان دانشوروں میں سے ہیں جو غربت اور بھوک کے خلاف برسوں سے برسرِ پیکار ہیں اور کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں۔ اسی لیے انہیں 2006 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ اپنے خطبہِ امن میں انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹیوں کے علمی ایوانوں میں مختلف اقتصادی نطریوں پو بحث و تمحیص کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ غربت کے خلاف جنگ لیکچر ہالزLECTURE HALLS کی بجائے گلیوں بازاروں اور جھونپڑیوں میں لڑنا ہوگی۔ انہوں نے دیہاتی سطح پر گرامین بینک GRAMEEN BANK بنانے شروع کیے اور عورتوں کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضوں کا اجرا کیا۔ جوں جوں بینک ترقی کرتے گئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں عورتوں نے قرضے لے کر اپنا معیارِ زندگی بلند کرنا شروع کیا۔ نوبل انعام حاصل کرنے تک تہتر ہزار دیہاتوں سے ستر لاکھ عورتوں نے قرضے حاصل کر کے بینک سے استفادہ کیا تھا۔ ڈاکٹر یونس کو اس بات پر پورا یقین ہے کہ غربت امن کے لیے خطرہ ہے اور افلاس کے خلاف جہاد پرامن طرزِ زندگی اور پرامن معاشروں اور ملکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر یونس نے بہت سارے بھکاریوں کو بھی کاروبار شروع کرنے میں مدد کی تا کہ وہ باعزت اور پرمقصد زندگی بسر کر سکیں۔

ڈاکٹر یونس کا خیال ہے کہ بین ا لاقوامیت ایک ملی جلی برکت ہے۔ ایک سطح پر یہ دنیا کے مختلف خطوں کے رابطے کا باعث بنتی ہے لیکن دوسری سطح پر یہ بین ا لاقوامی کمپنیوں کو ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن کرتی ہے جس کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی کمپنیوں اور کاروباروں کے لیے پھلنا پھولنا اور پنپنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر یونس بین الاقوامیت کو ایک ایسی بین الا قوامی شاہراہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی ایک سو لینز one hundred lanes ہوں۔ اس شاہراہ پر بڑے بڑے ٹرک تو چل سکتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے رکشے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقتصادی ترقی کا سماجی ترقی سے چولی دامن کا ساتھ ہونا چاہیے تا کہ جب بڑی کمپنیاں اور کاروبار ترقی کریں تو وہ اپنی دولت اور منافع میں غربا کو شریک کر کے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ان کی مدد کریں۔ ایسا کرنے سے امرا اور غربا کے درمیان فاصلہ کم ہوگا اور وہ ایک متوازن اور پرامن دنیا قائم کر سکین گے۔

ڈاکٹر یونس کا کہنا ہے کہ غربت غریب لوگ پیدا نہیں کرتے۔ یہ امیر لوگوں کی پالیسیوں اور حرص کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو اکثریت کی بجائے اقلیت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں گرامین بینک کا موڈل بہت سارے غریب اور ترقی پذیر ممالک نے اپنایا ہے۔

Economic

Economic

اقتصادی امن کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی امن کی بھی ضرورت ہے۔ پرامن فضا پیدا کرنے کے لیے مختلف نسلی مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے لوگوں کو مل جل کر رہنے اور پرامن طریقوں سے اپنے مسائل حل کرنے کا طریقِ کار اپنانا ہوگا۔ ایسی فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ملک کے قوانین ایسے ہوں جو انسانی حقوق human rights کو اہمیت اور وقعت دیںلوگوں میں سماجی شعور بیدار ہو چکا ہو اور وہ قبائلی سوچ اور ذہنیت tribal mentality کو ترک کر چکے ہوں۔

بیسویں صدی میں مارٹن لوتھر کنگ جونیرMARTIN LUTHER KING JUNIOR ایک ایسے لیڈر تھے جنہوں نے سماجی امن کی جنگ لڑی اور انہیں 1964 کا امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ یہ انعام انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا انعام تھا۔ اس جدوجہد نے امریکہ میں اس وقت نیا موڑ لیا جب ایک بوڑھی کالی عورت روزا پارکROSA PARK نے ایک بس میں اپنی سیٹ ایک گورے نوجوان کو دینے سے انکار کر دیا۔ اس جدوجہد نے اس وقت زور پکڑا جب سیاہ فام لوگوں نے ہڑتال کی بسوں کا بائیکاٹ کیا اور اپنے کاموں پر پیدل جانا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب مارٹن لوتھر کنگ نے اس وقت تک پر جوش تقریریں جاری رکھیں جب تک کہ غیر منصفانہ اور متعصبانہ قانون تبدیل نہیں ہو گیا۔ اپنے خطبہِ امن میں انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ طویل مدت سے اپنی جلد کے رنگ کی وجہ سے مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ نا انصافی دور کی جائے تا کہ سیاہ فام لوگ پروقار اور باعزت زندگی گزار سکیں۔ان کا ایمان تھا کہ پسے ہوئے لوگ ہمیشہ کے لیے پستے نہیں رہیں گے۔

کنگ اور ان کے ساتھی اپنے آدرش کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ وہ اپنے نصب العین کے لیے جانیں دینے کے لیے تیار تھے لیکن دوسروں کی جانیں لینے کے لیے نہیں۔ کنگ موہن داس گاندھیGANDHI کے پیروکار تھے اور گاندھی لیو ٹولسٹائیTOLSTOY کے مقلد تھے۔ ٹولسٹائی145 گاندھی اور کنگ کے پیروکاروں نے پرامن طریقوں سے پرامن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی۔

پچھلی چند دہائیوں کے دوران متعدد قومیں اور قبائل ایک دوسرے سے دست و گریبان رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بچوں کو نسل در نسل قتل کرتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی میں متعدد سیاسی لیڈروں نے اپنے پیروکاروں کی توجہ اس طرف دلوائی کہ وہ جنگیں جاری رکھ سکتے ہیں اور مزید انسانی جانیں ضائع کر سکتے ہیں اور یا اپنے دشمنوں سے صلح کر کے تشدد کا نسل در نسل کا سلسلہ ختم کر سکتے ہیں۔ میں بیسویں صدی میں اس کی دو مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی مثال اسرائیلی لیڈر یٹزک ربینYITZAK RABIN کی ہے جنہوں نے فلسطینی لیڈر یاسر عرفات سے ہاتھ ملایا اور دونوں نے 1994 میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ یہ انعامات مشرقِ وسطیٰ میں دونوں کی امن کی کوششوں کے سلسلے میں دیے گئے تھے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ دونوں لیڈر امن کے راستے پر چلنے سے پہلے مسلح جدوجہد ARMED STRUGGLE میں شامل تھے۔ یاسر عرفات نے اپنے نوبل لیکچر میں فرمایا کہ امن کے معاہدے کی بنیاد یہ تھی کہ فلسطینیوں کو نہ صرف امن کے بدلے میں زمین ملے گی بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق بھی ملیں گے۔ یٹزک ربین نے اپنے خطبہِ امن میں یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے امن کے راستے کا انتخاب کیا۔

ربین اور عرفات نے مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سے پیشتر کہ ربین اور عرفات کا امن کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوتا ایک انتہا پسند اور تشدد پسند یہودی نے ربین کو اس لیے قتل کر دیا کہ انہوں نے دشمن سے ہاتھ ملایا تھا۔ ربین کو امن کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔

امن کے معاہدے کی دوسری مثال نیلسن منڈیلاNELSON MANDELA اور ڈی کلارک DE KLERK کا معاہدہ تھا۔ جو ربین اور عرفات کے معاہدے سے زیادہ کامیاب رہا جس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں جمہوری انتخابات ہوئے اور دونوں کو 1993 کا امن کا نوبل انعام ملا۔ اپنے نوبل لیکچر میں دونوں نے فلسفہِ امن پر روشنی ڈالی۔ منڈیلا نے کہا ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جنوبی افریقہ ایک نیا روپ دھارے گا اور جمہوری اقدار اپنائے گا۔ وہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرے گا جس میں انسانی حقوق کی پاسداری ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ دنیا غربت اور جہالت سے پاک اور جنگوں کے خوف سے آزاد ہو۔ ہمیں اس ڈر سے نجات ملے کہ لاکھوں لوگوں کو مجبورا مہاجر بننا پڑے گا۔

ڈی کلارک نے اپنے خطبہِ امن میں کہا کہ انسانوں کی باہمی رضامندی کے بغیر امن ممکن نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ امن ایک زاویہِ نگاہ ہی نہیں ایک ممطحِ نظر بھی ہے۔ امن سوچ کا ایسا انداز ہے جس میں ملک معاشرے جماعتیں اور افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اختلافات تشدد کی بجائے افہام و تفہیم سے حل کریں۔ امن ایسا طرزِ زندگی ہے جس میں سماجی اقتصادی اور سیاسی معاملات کے بارے میں پرامن تبادلہِ خیال کیا جا سکتا ہے۔ جوں جوں دنیا کے زیادہ سے زیادہ رہنما اور ان کے پیروکار امن کا شعور پیدا کریں گے وہ تشدد کی بجائے امن کا راستہ اپنائیں گے اور ایک پرامن معاشرہ تعمیر کریں گے۔ اقتصادی سماجی اور سیاسی امن ایک ہی قوسِ قزح کے مختلف رنگ ہیں جسے پرامن لوگ اپنی کوششوں سے تخلیق کر رہے ہیں۔ نوبل انعال یافتہ ایلی ویزلELIE WIESEL کا کہنا ہے کہ امن خدا کی طرف سے انسانوں کو نہیں بلکہ انسانوں کا ایک دوسرے کو محبت بھرا تحفہ ہے۔

Habib u Rehman Changwani

Habib u Rehman Changwani

تحریر: حبیب الرحمن چنگوانی