تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت

Punjab University Fight

Punjab University Fight

تحریر : مفتی خالد محمود
گذشتہ روز پنجاب یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کے درمیان شدید تصادم کے نتیجے میں درجنوں طلبا شدید زخمی ہوگئے ۔یہ جھگڑا کئی گھنٹے جاری رہا سینکڑوں پولیس اہلکار اپنے افسران کی موجودگی میں یونیورسٹی سے باہر موجود رہے اور انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے مداخلت نہ کرسکے جس کی وجہ سے بروقت تصادم پر قابو نہ پایاجا سکا۔ جبکہ لاٹھی بردار طلبا کے جتھے مسلسل لاٹھیاں لہرا لہرا کر وحشت اوردہشت کا اظہار کرتے رہے اور مخالف فریق پر برستے رہے ۔اس تمام کارروائی کے دوران انتظامیہ بظاہر بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہی مگر حقیقت میں بے بس رہی۔ پنجاب یونیورسٹی میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں کچھ عرصہ قبل بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا قبل ازیں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اسلحہ اور شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوئی تھیں ۔شراب تو ایم این ایز ہاسٹل اور سینٹ کے آس پاس سے بھی برآمد ہوتی رہتی ہے اور اس کی گونج ایوان زیریں اور ایوان بالا میں بھی آتی رہتی ہے مگر شاید یہ اب معیوب بات نہیں رہی کیونکہ زمانہ بدل گیا، اقدار بدل گئیں، مزاج بدل گیا، اطوار بدل گئے ،تہذیب بدل گئی ،ثقافت بدل گئی، تو سب کچھ بدل گیا۔ بات پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کی ہو رہی تھی تو یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے آپ پاکستان کے کسی کالج یونیورسٹی کی تاریخ دیکھ لیں آپ حیران ہوجائیں گے کہ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں کتنے طلباء قتل ہوئے کتنے زخمی ہوئے اور گھر سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے کتنے طلبا دوران تعلیم مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیلوں میں گئے۔

مقدمات میں الجھنے کی وجہ سے کتنے طلبا نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی یاوالدین نے بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکال لیا ۔اگر اس کی تحقیقات کی جائیں تو نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہوں گے آپ اپنے اضلاع کے کالجز کے بارے معلومات لیں اور کچھ دیر کیلئے 80 اور 90 کی دہائی میں چلے جائیں تو آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے کتنے ذہین وفطین بچے جو اگر کالج یونیورسٹی میں کلاشنکوف کلچر سے بچ جاتے تو آج دھرتی کیلئے قابل فخر ہوتے۔ مگر افسوس کہ وہ تعلیم کی ڈگری حاصل کرنے کی بجائے قبر کے پاتال میں اتر گئے ۔آج تک ان حالات و واقعات سے پردہ نہیں اٹھایا گیاکہ تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کیسے آئی کلاشنکوف کلچر کون لایا طلبا کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کس نے بنایا تصادم کی راہ کس نے ہموار کی لڑائی جھگڑے قتل وقتال کے بعد متحارب گروہوں کو سپورٹ کس نے کیا اور تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑوں کی بنیاد کیا تھی ،کیا رہی اور کیا ہے ۔ عوام کو تو بخوبی معلوم ہے کہ ان جھگڑوں کی بنیاد کالج یا یونیورسٹی میں اپنا اپنی تنظیم کااثر ورسوخ قائم کرنا ہوتا ہے اسی مقصد کیلئے خون بہایا جاتا ہے دنگہ فساد کیا جاتا ہے اس عمل میں طلبا صرف آلہ کار ہوتے ہیں اصل قوتیں باہر ہوتی ہیں جو اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے طلبا سے کام لیتی ہیں ۔ان قوتوں میں سیاستدان بھی ہیں اور حکمران بھی ہر حکومت نے اپنی طلبا تنظیم کی سرپرستی کی اور ہر سیاستدان نے اپنے منظور نظر گروہ کونوازا۔

اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے مافیا زکے لوگ بھی اس میں شامل رہے جن کے اپنے مذموم مقاصد تھے اور اپنے مقاصد کے حصول میں ہر طبقہ کافی حد تک کامیاب رہا۔ سیاستدانوں کو سپورٹرز مل گئے، حکمرانوں کو تماشائی اور مختلف مافیاز کو خریدار اور بروکر۔یوں ہر طبقے کا روزگار چلتا رہا اور تعلیم کے حصول کیلئے گھروں سے نکلنے والے نونہال ان دیکھی راہوں پر چل کر اپنا مستقبل تاریک کرتے رہے ۔تعلیمی اداروں میں معمولی لڑائی جھگڑوں کو قتل قتال تک لے جانے والے لوگ عام طور پر آئوٹ سائیڈر زہوتے ہیں ۔ان آئوٹ سائیڈرز کی اکثریت اسی کالج یونیورسٹی کے قدیم طلباء ہوتی ہے جو دوران تعلیم علم کی شمع روشن کرنے کی بجائے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ کر ڈان بن چکے ہوتے ہیں ۔اب ان کا سکہ چلتا ہے اور یہ لوگ باقاعدہ بھتہ وصول کرتے اور زیر تعلیم طلبا سے بیگار لیتے ہیں ۔عام طور کالج یونیورسٹی میں آنے والے طلبا ان معاملات سے دور رہنا چاہتے ہیں مگر یہ ڈان ٹائپ لوگ انہیں اس دلدل میں لے آتے ہیں کیونکہ ہر روز پٹنے اور ذلیل ہونے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے نئے طلبا کو مجبوراََ ان لوگوں کی اطاعت کرنا پڑتی ہے اور یہ اطاعت ہی ایک مزید ڈان پیدا کر دیتی ہے ۔یہ آئوٹ سائیڈرز کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں ہی رہتے ہیں اور انہیں یہاں وی آئی پیز کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

Bahauddin Zakariya University Multan

Bahauddin Zakariya University Multan

اس تمام صورتحال سے کالج اور یونیورسٹیوں کے منتظمین بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں مگر وہ معاملات کے پیش منظر پس منظراور پس پردہ کار فرما عوامل سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں اور نتائج وعواقب سے بھی بے خبر نہیں ہوتے ۔لہذا خاموشی میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں کچھ عرصہ قبل بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی ایسا ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے درجنوں لڑکے گرفتار کیے اسلحہ برآمد ہوا اور پھر وہ کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اب ان سنگین واقعات کا مجرم کس کو قرار دیا جائے تعلیم کو؟ تعلیمی ادارے کو؟اساتذہ کو ؟ ماحول کو؟یا حکومتوں کو ؟ جرائم توآخر ہوئے مجرم کوئی تو ہے چلو کچھ نرم الفاظ میں کہہ لیں تو اس کا ذمہ دار کس کو قرار دیا جائے گا ۔سانحہ پشاور تو دو سال قبل رونما ہوا اس سے پہلے کالجوں اور یونیورسٹی میں پولیس رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی کس مقصد کیلئے ہوتی تھی ؟حالات کا ایک رخ تو یہ ہے ۔اب دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں آپ ملک بھر کے جرائم پیشہ افراد اور ملک بھر کی جیلوں کا ریکارڈ چیک کریں تو آپ حیرت کے دریا میں ڈوب جائیں گے کہ ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ قتل ،اقدام قتل، ڈکیتی ،چوری، زنا، منشیات فروشی جیسے سنگین جرائم سے لیکر جیب تراشی موبائل چوری تک کی وارداتوں میں میں ملوث ہیں ۔سزائے موت ،عمر قید سے لیکر دو ماہ تک کی قید کاٹ رہے ہیںآپ انٹی کرپشن اور نیب کے ریکارڈ کو چیک کریں تو ایک بات اور بھی واضح ہو جائے گی کہ جس کی تعلیم عہدہ اور اختیار جتنا زیادہ ہے اس کے جرائم کا پلڑابھی اتنا ہی بھاری ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔

آخر ہمارا نظام تعلیم ہمیں باکردار اور صالح نوجوان اور دیانتدارقیادت کیوں نہیں دے رہا آخر ہم اپنے تعلیمی اداروں پر توجہ کیوں نہیں دے رہے یہ بھی ماحولیاتی آلودگی کے زمرے میں آتا ہے ۔آخر ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی کوئی تدبیر کیوں نہیں کی جا رہی ۔ہمارا ایک عدد محکمہ ماحولیات بھی ہے ماحولیاتی آلودگی میں اس چیز کو بھی شامل کیا جائے کہ ہماری نسل نو بھی آلودگی سے محفوظ رہے ۔مگر افسوس کہ محکمہ ماحولیات بھی آلودگی کی زد میں ہے اور کسی طرف سے تازہ ہوا کے جھونکے کا منتظر ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے حالیہ واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ آئندہ ایسے افسوس ناک واقعات ظہور پذیر نہ ہوں ایسے واقعات زیر تعلیم طلبا میں حصول تعلیم کی بجائے لاقانونیت کا جذبہ اجاگر کرتے ہیں اور یہ چیز آگے چل کر قتل ،قتال، ڈکیتی ،راہزنی سے لیکر طیارہ ہائی جیکنگ اور سوئس اکاؤنٹس سے لے کر پانامہ لیکس تک جا پہنچتے ہیں ۔کیونکہ جو نوجوان نچلی سطح پر رہتا ہے وہ لڑائی جھگڑے قتل ڈکیتی تک محدود رہتا ہے اور جو اقتدار، اختیار اور عہدہ حاصل کرلیتا ہے وہ نیب ،انٹی کرپشن ،سوئس اکائونٹس اور پانامہ لیکس کی زد میں آتا ہے۔

ان حالات میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر دینی مدارس میں اصلاحات کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے اور یہ واویلہ مچاہوا ہے کہ مدارس کا نصاب تعلیم موجودہ دور کے تقاضے پورے نہیں کرتا اور مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ کہ مدارس دہشت گرد پیدا کرتے ہیں ۔اسی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دینی مدارس کو نیشنل ایکشن پلان میں شامل کیا گیا مگر آج تک نہ تو مدارس سے کلاشنکوف ملی نہ طلبا تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا نہ کوئی طالب علم لقمہ اجل بنا نہ ہی طلبا کے خوف سے مدارس کے باہر پولیس رینجرز اور سیکورٹی اداروں کے تعاون کی ضروت پڑی نہ ہی سوئس اکاؤنٹس ،پانامہ لیکس اور انٹی کرپشن میں علماء اور مدارس کا نام آیا ۔تو اصلاح کی ضرورت کس نصاب میں اور کن اداروں میں ہے ۔ اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

Mufti Khalid Mehmood

Mufti Khalid Mehmood

تحریر : مفتی خالد محمود
0300-6381330