یہ کیسی عید تھی؟

Baghdad Blast

Baghdad Blast

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
عید الفطر مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کا انعام اور خدا کا اکرام ہے نیز مسلمانوں کی حقیقی مسرت ،شادمانی و محبت کا عظیم دن کہلاتاہے ۔ عالم اسلام بدستور آگ و خون میں نہایا رہا ر مضان المبارک میں استنبول میں خون بہا،ڈھاکہ میں خود کش حملہ ہوا عراق میں مستقل مسلم خون ارزاں رہاحتیٰ کہ سعودیہ میں بھی شر پسند کاروائی ڈال گئے جنھیں ذرا برابر بھی شرم نہ آئی کہ یہی ملک تو ہمارے لیے رو حانیت کا پہاڑ ہے ۔رمضان المبارک میںجہاں خدا تعالیٰ کی رحمتیں برستی رہیں وہیں سود خوروں کی بھی چاندی رہی ہر مال خصوصاً اشیائے خوردونوش تگنی چوگنی قیمتوں پر بیچ کر انہوں نے اپنے ڈھول نما پیٹ مزید حرام سودی روپوں سے بھر کر جہنم میں جگہ بنالی۔ جمہوری دیوی جمہوری ڈائن بنی خوب اسلام اور اس کے پیروکاروں کا مذاق اڑاتی پھری۔کہ دیکھا میرے پروردہ خوب عید منارہے ہیں۔

بلکہ جہاں جہاں میری اور پھر انگریزوں کی اولادیں ،جاگیردار وڈیرے برسر اقتدار بیٹھے ہیںان کی تو سارا سال ہی عید رہتی ہے۔ کہ دیہاڑی لاکھوں کروڑوں کی لگ جاتی ہے اس طرح ممبران اسمبلی جو کہ پہلے ہی اٹھانوے فیصد وڈیروں جاگیرداروں میں سے ہی ہیں۔انہوں نے تو موجودہ بجٹ میں ہی دو سو فیصد تنخواہیں خود ہی بڑھا لیں تھیںاور پھر ہرسکیم سڑک سکول میں بھی “خدا کا فضل”خاصا ہو جاتا ہے۔انہوں نے عید پر خوب گل چھرے اڑائے آئے گئے عید پر ملنے والے کو خوب مٹھائیاں کھانے کھلائے ۔خود بھنے گوشت رات کوجام لڑھائے اور رنگ رنگیلی محفلوں میں شمولیت رکھی رمضان المبارک میں حاصل کردہ ثواب غالباً ایک ہی دن میں برابر کرڈالا۔ برسر اقتدار ٹولوں کو شرم تک بھی نہ آئی کہ ہمارے بالکل ساتھ اور ہمسایوں میں کچی آبادیوں میں وہی پھٹے پرانے کپڑوں کے پہناوے پہنے اور ٹو ٹی جوتیاں پہنے۔پسماندہ طبقات کے لوگ عید گاہ روانہ ہوئے۔

بچوں کو نئے کپڑے نہ لے کر دینے کی وجہ سے گھر میں کہرام مچا رہا میاں بیوی آپس میں چھترو چھتری رہے۔ اور بچے رونے دھونے میں مشغول۔ حکومتی خصوصی مہربانیوں سے مسلسل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پانی تک دستیاب نہ ہو سکا بچے نہاتے تو کیا منہ دھوتے رہ گئے کئی لوگ سوچتے رہ گئے کہ یہ عید کہیں آخری عید ہی نہ ہو۔مہنگائی کا جن شیطانی ہنسی ہنستا اورمنہ چڑاتا رہا شاید اسے رمضان المبارک میں تمام شیطان جو باندھ دیے جاتے ہیں یہ کھلا رہ گیا ۔غریبوں کے بچے عید پر فروٹ مٹھائی تو کہاں وہی “چڑی سورا”یعنی پسی سرخ مرچ کٹھی لسی میں گھول کر پیتے اور اس سے روٹی کے نوالے نگلتے رہے کسانوں کی تو حکمرانوں نے رمضان شریف سے قبل ہی مت مارڈالی تھی گندم اونے پونے داموں سرمایہ دار آڑھتیوں کوبیچنا پڑی کہ اسی کودنیا کا پلید ترین سودی سرمایہ داری نظام کہتے ہیں جس میں سرمایہ دار مزدوروں کسانوں کا خون پیتا رہتا ہے بس چلے تو شرابوں میں بھی ملا کر۔

Poor Girls

Poor Girls

غربت کی ماری اَن بیاہی بچیاں عید کی خوشی تو کیا مناتیں سنہری سفیدی سر لیے سر خدا کی بارگاہ میں دعا گو اور سجدہ ریز رہے کہ کہیں ہمارے ہاتھ بھی پیلے ہو جاتے تو گھر بار بنالیتیں۔اور جو بغیر جہیز کی لعنت کے شادی شدہ تھیں تو انھیں کیا عید کیا شب برأت۔ ساسیں و یگر رشتہ داروں کے طعنے کہ”سُسری “کیا ساتھ لائی تھی ؟کوئی اور گھراجاڑنے کو نہ ملا تھا ؟کہ یہاں منہ اٹھائے آن پہنچی اب عید مناتی ہے جا بڑوں کے گھر برتن کپڑے دھو،جھاڑو مار ،مال لاتو کچھ کھائیں پکائیں۔عید پر سرمایہ دار سود خور بدمعاشوں اوباشوں نے غریبوں کی عزت و آبرو سب کچھ گنوایا آڑھتیوں نے گندم کے پیسے بھی نہ دیے شو گر ملوں نے پچھلے سال گنا چھینا کچھ نہ دیا ان کی کیا عید ہوتی؟بڑے شہروں میں گوشت بکرابارہ سے پندرہ سو روپے کلو اور چھوٹے شہروں میں ہزار تک بکا۔ٹماٹر و لیموں نے چار چار سنچریاں بناڈالیں ۔سول انتظامیہ گنگھنیاںڈالے دیکھتی اور ایس ایچ اولمبی تانے کہ انھیں لمبا مال غریبوں کو لوٹنے کے لیے دوکاندار پہلے ہی جمع کرواچکے ہیں۔چونکہ حکمران بھی کاروباری صنعتکار ادھر مہنگا بیچنے والے بھی ان کے پیٹی بھائی کون پکڑے کون سزا دے۔سندھ کے بڑے شہروں میں بدستور زکواة فطرانہ کی غنڈہ گردی اور دھونس سے وصولی جاری رہی۔

مہنگائی تو اس بارریکارڈ توڑ گئی ۔مرغیوں کے کاروباری شریفوں اور ان کے رشتہ داروں نے خوب ات مچایا مرغی تین سو کلو تک بیچی ۔خصوصی لوٹ کھسوٹ اس لیے کی گئی کہ اگر وکی لیکس والی رقم دیار غیر میں ضبط بھی ہو جائے تو نئی وکی لیکس میں مال دوبارہ دفنانے کے لیے سرمایہ تیار رہے ۔فرقہ واریت اور مسالک کی وجہ سے مسلمان عید پر ملتے ہوئے منافقانہ ہنسی ہنستے اور دلوں میں مزید کدورتیں پالتے رہے اس طرح دشمنان دین کامیاب اور محمدعربیۖ کے غلام پریشان حال رہے ۔دوسرے مذاہب کے کاروباری حضرات مذہبی تقریبات پر اشیاء کی قیمتیں نصف کرڈالتے ہیںاور مسلمان بھائیوں کو انھی دنوں میں کاروباری حضرات سے لٹنا ہوتا ہے کہ قیمتیں چار پانچ گنا زیادہ ۔مسلم کاروباری طبقے کریہہ الذہن ،نامعقول خونخوار بھیڑیے بنے ہوئے زخم پر زخم لگائے جاتے ہیں۔

یہ شیطان الصفت افراد معدودے چندصحیح مگر کیا یہ احتساب کے شکنجوں میں کسنے اور گردن زدنی کے قابل نہیں؟ عید پر علماء نے قومی سلامتی اتحادامت اور عالم اسلام کے اتحاد کے لیے رو رو کر دعائیں کیں مگر مسلمانوں میں سرا سیمگی کی کیفیت ختم نہ ہو سکی عید گاہوں پررش کم رہاکہ دھماکے کا شک ذہنوں پر سوار رہتا ہے ۔عید سے قبل مہنگائی کے جنوں شیطانوں کو نتھ نہ ڈالی گئی جس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اضلاع میں مشہور زخیرہ اندوزوں کو ٹکٹکیوں پر باندھا جائے الٹا سیدھا لٹکایا جائے باقی خود بخود بندے کے پتر بن جائیں گے۔اور عیدیں غمیوں کے بجائے خوشیوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔اور لوگ موجودہ عید میں جھولیاں اٹھا اٹھا کر صلواتیں سنانے کی بجائے دعائیں دیں گے۔

Ihsan Bari

Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری