عیدی

Eid Shopping

Eid Shopping

تحریر : شاہ بانو میر
بہت خوش ہو
ہاں ہوں تو؟
واقعی
دوبارہ آواز گونجی اس بار لہجہ سخت تھا٬
ہاں تو کہ دیا مگر میری آواز میں دم نہیں تھا اندر جیسے کوئی بیچینی سی ہے
اعتراف کرنا پڑا کشمکش جاری تھی یہ بتانے میں عافیت جانی ٬
اداس سی آواز آئی
مجھے پہچانا ؟
کک ووووو و ن
کووو و ن
اس کے بدن میں جیسے کپکپی سی طاری ہونے لگی٬
کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور آواز موجود تھی٬
ہکلاتی ہوئی آواز
خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی
کون ہو؟
کیا کہنا چاہتے ہو ؟۔

کچھ نہیں
سرد جذبات سے عاری آواز کمرے کے درو بام میں گونجی
میں چاہتے ہوئے بھی پہچاننے سے قاصر رہی
کون ہو بتا دو
کون ہوں؟
بتاتا ہوں پہلے یہ بتاؤ یہ سب کیا ہے ؟
یہ سب
اسکے کہنے پے نگاہ دوڑائی تو کمرہ عید کی رنگین خِوبصورتیوں سے بھرا ہوا تھا٬
کہیں بیٹیوں کیلئے حنا تھی
کہیں رنگین چھن چھن کرتی کانچ کی چوڑیاں
کہیں بالوں کی آرائش کی چیزیں
تو کہیں سنگھار کی سوغاتیں
جوتوں کے ڈبوں کے انبار
ایک پہلے دن کا جوڑ ا
جوتوں کا
کپڑوں کے ساتھ میچ
تو دوسرے دن کے ساتھ دوسرا جوڑا جوتوں کا
چمکتے دمکتے کپڑے کڑہائیاں
اور کامدار سوٹ اپنی بہار دکھا رہے تھے
میں سُن سی ہو گئی جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو
یہ یہ یہ یہ
باوجود کوشش کے بھی حلق آواز نکالنے سے قاصر تھا
یہ سب بڑی مشکل سے تھوک نگلتے ہوئے گلہ تر کیا
اور
ہلکی آواز میں جواب دیا
یہ سب عید کی شاپنگ
وہ تو نظر آرھا ھے۔

Eid

Eid

عید والے دن
تم سب اہتمام سے تیار ھو گے
نئے نئے کپڑے ہوں گے
مزیدار پکوان بھی
ہاں جی
نا سمجھتے ہوئے بھی میرے منہ سے نکل گیا
آہ
ایک سرد
آہ گونجی فضا میں
کیوں ؟
ایسا کیوں
تم کیوں اداس ہو
میں
کیوں اداس ہوں ؟
جانتی ہو؟۔

نہیں
میں اس لیے اداس ہوں
کہ ان دنیاوی رنگینیوں سے واسطہ نہیں ر ھا
لیکن
اُن گھر میں تم جیسوں نے کبھی جھانک نہیں دیکھا
کہ
اس گھر کی عید کیسی ہے
جہاں باپ نہیں ؟
جہاں کوئی کمانے والا نہیں
اپنی خوشیوں پر اتنا لگا دیتے ہو
کہ کہیں بھی انسانیت کی یہ سوچ
آتی ہی نہیں کہ
ان میں سے صرف چار چیزیں کم خرید لیتے
تو شائد میری بیٹی یا بیٹے کو بھی
عید والے دن کوئی نئی چیز نصیب ھو جاتی
دیکھو تو سہی سوچو تو سہی وہ بھی بچے تمہارے بچوں جکی طرح کومل کومل ہیں
اناک دل بھی ہے جو خواہشیں رکھتا ھے
مگر
اللہ کی رضا
اللہ نے ان سے چھین لیا باپ تو انکا کیا قصور
مگر
تم جیسے تو موجود ہیں ناں
جو وسیلہ بن سکتے تھے
اف
میں بے جان سی ہو کے وہیں گر سی گئی
تم کون ہو؟۔

بتاتے کیوں نہیں
روح ?
ایک تھری تھرتھری سی
کپکپی سی میرے وجود میں دوڑ گئی
روح نہیں ہوں
احساس ہوں
جسے سُلا دیا تھا شعور میں
لیکن کہیں
لاشعور میں زندہ تھا میں
کیا کیا ہے تم نے ؟
اس دوست کیلئے جس کے
شوہر کی ڈیتھ ابھی دو ماہ پہلے ہوئی ـ۔

Poor Family

Poor Family

کیا کیا
اس بیوہ کیلئے
جو بائیں طرف
چوتھے مکان میں رہتی ہے
اپنی کوٹھی میں داخل ہونے سے پہلے دس بار گاڑی لیکر وہاں سے گزرتی ہو
کبھی ایک لمحے کیلئے بھی سوچا
نہیں
میری کمزور اور نحیف آواز ابھری
نہیں
کبھی نہیں
بچوں کو کبھی فش برگر
کبھی چائینیز
اور ساتھ بالکل ساتھ سوکھی روٹی؟
یا شائد وہ بھی نہیں
سلائی کر کے وہ اپنا اور چار بچوں کا پیٹ پالتی ہے ؟۔

کبھی دھیان گیا
نہیں
پھر تمہیں کہنے کا کوئی فائدہ نہیں
ایک تم نہیں ساری
امت سارے مسلمانوں کا ہی یہ حال ہے
اس وقت
اپنی اپنی چادر پھیلا رہے ہیں
اور امت کو سکیڑ کر خو اپنا قد بڑھانا چاہتے ہیں
یہ بنیاد غلط ہے
یہ اسلام کا اللہ کا محمد ﷺ کا حکم نہیں
خلافِ اسلام چلتے ہوئے دیکھ لو آج کہاں پہنچ گئے
حصہ نکالنا سیکھو
دینا سیکھو
اندر سکون چاہیے تو
بے چین رہتی ہو ہزاروں کی شاپنگ کرتی ہو
دل کو بیچینی سے بچانے کیلئے پھر دوسرے دن وہی بے سکونی
انداز بدلو
سادگی اپناؤ اس میں سے دو وہاں جہاں دینا حق ہے۔

پھر دیکھو
بے چینی کیلئے شاپنگ کا سہارا نہیں لینا پڑے
اطمینان تو گھر کے باہر ہی موجود ہے
اس بیوہ کی مدد کی صورت
مگر راہ دکھائیں کسے کوئی راہرو ہی نہیں
بسسسسسسسسسسسس
بسسسسسسسسسسسس
خدا کیلئے بس کر دو
میں واقعی بھولی ہوئی تھی
میں ابھی ابھی
فوراً ہی جاتی ہوں آج چاند رات ھے
اسکے بچے میرے ہی بچوں کے ہم عمر ہیں
اف
کیسی ناانصافی کر دی کیسی زیادتی کردی
اپنی ہی دھن میں اپنی ہی خوشی میں لگن
وہ اٹھی
سب چیزوں کی چھانٹی کی
مٹھائی پھیونیاں اٹھائیں
پرس پکڑا اور خاموشی سے گھر سے نکل گئی۔

دروازے پہ دستک
اس خاموش اداس گھر میں
چاند رات کو بھی اداسی تھی
سہم تھا
آنسو تھے آنکھوں میں
لوگوں کے گھروں سے شور شرابہ آرھا تھا
موٹر سائیکلز کے ہارن بتا رہے کہ آج ساری رات جشن ہے
خوشی ہے
مہندیاں لگوانے جا رہی ہیں
مگر
اس کا گھر خاموش قلعہ بنا
معاشرے کی بے حسی کا ماتم کر رہا تھا
صبح کے لیۓ آٹا بھی نہیں تھا
وہ بچوں کے پاس خاموش بیٹھی
آنسووں سے اللہ سے سوال کر رہی تھی۔

Eid Gift

Eid Gift

تو کہاں ہے ؟
اچانک
جیسے اللہ نے دعا آسمان پر سنی اور جواب زمین پر بھیجا
دروازہ بجا
ایک بار دو بار تیسری بار شدت تھی
مدد
ایک خیال ایک سوچ ایک تصور آیا
نظریں بے ساختہ اوپر اٹھیں شکرانے کے تشکر کے آنسو میلی چادر پے گرے
کون ؟
میں ہوں کھولیں ؟
آواز تو جانی پہچانی تھی
کونے والی کوٹھی والی بیگم کی جن کے کپڑے وہ سیتی تھی
نک چڑھی اور بد مزاج
ان سےمدد کی امید نہیں تھی۔

شائد کوئی رات کو کپڑا سلوانا ہے
مایوسی نے بڑھتے قدم سست کر دئیے
بے دلی سے دروازہ کھولا
تو لفافِوں کا ڈبوں کا انبار تھا
شکل صورت مفقود
یہ کیا
پکڑو نا
اس نے آگے ہاتھ بڑھا کے سارے ڈبے
اٹھائے تو وہ اسکے پیچھے چلتی ہوئی
بچوں کے پاس چار پائی پر بیٹھ گئی
یہ پہلی بار تھی
ورنہ تو کھڑے ہی کام سمجھا کے نکل جاتی تھیں
بچوں کے آگے مٹھائی اور کھانے پینے کی چیزیں رکھیں
تو بھوکے اور ناتواں بچے لالچ کی بجائے ایک آن
ایک خودی رکھتے تھے۔

سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا
کہ
کہیں انکی بے صبری ماں کی رِدا کے چیتھڑے نہ اڑا دے
ماں نے انکے افسردہ چہروں کو دیکھا
اور ایک ہلکےسےاثباتی انداز میں اشارہ دیا
یہ سب لے لو میرے اللہ کا کرم ہے
یہ سب اسی کی دین ہے اسی کا بنایا ہوا وسیلہ ہے
بچوں نے بڑے قرینے سے سلیقے سے
اس لفافے کو کھولا اور کھانا شروع کیا
یہ بچوں کیلۓ ایک لفافہ پھولا ہوا
اس نے اسکے ہاتھ میں دیا
بڑی بہن سمجھو
کل کھانا میں بھجواؤں گی۔

میں آپ کا یہ احسان
اس نے بکھری ہوئی خوشیاں جو چمکتے دمکتے ہوئے کپڑوں چوڑیوں
جوتوں میں چھپی تھیں
انکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
چکا سکتی ہو
مجھے دعا چاہیۓ
آج کا احساس اور اطمینان اس دولت نے نام نے شہرت نے نہیں دیا
جتنا اس چھوٹے سے گھر میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر مل رھا ہے
مجھے معاف کرنا
سمجھ دیر سے آئی
مگر
انشاءاللہ
اب میں بڑی بہن کی طرح خیال رکھوں گی تمہارا
ایک ذرا سی توجہ
ایک ذرا سی قربانی
کسی کے گھر میں خوشیوں کی جوت جگا گئی
اپنے گرد و نواح دیکھئے
محسوس کیجیۓ
اور اپنی خوشیوں کی تھِوڑی سی کٹوتی کر کے قربانی دے کے
ان کے گھروں میں بھی عید کا چراغاں ہونے دیجیۓ
یہی اللہ یہ نبی یہ اسلام ہے
عید مبارک

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر