پی بی 7 زیارت کا ضمنی الیکشن

 Election Commission

Election Commission

تحریر : عبدالغنی شہزاد
بلوچستان اسمبلی کا حلقہ پی بی 7 کا ضمنی انتخاب 26 مارچ بروز جمعرات کو ہو رہا ہے اس نشست کو الیکشن کمیشن کی جانب سے 26 جنوری کو رکن بلوچستان اسمبلی حاجی گل محمد دمڑ کی وفات کے بعد خالی قراردیا تھا، اس حلقے کو قدرتی حسن ،صنوبر کے جنگلات اور سیاحتی مقامات کی بناء پردل چسپ اہمیت حاصل ہے ، یہاں انگریز دور میں تعمیر ہونے والی ریذیڈنسی میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے ، زیارت کے پرامن ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریذیڈنسی کو 2013میں نامعلوم افراد نے مکمل تباہ کرکے رکھ دیا،جسے حکومت نےہنگامی طور پر اصل بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کراکے بحال کرایا. اور اس تباہی کی ذمہ داری بھی ایک کالعدم شدت پسند نے قبول کی، چندسال قبل مختلف شدت پسند تنظیموں کی جانب سے زیارت کے کوہستانی ساخت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وانا وزیرستان طرز پر ماحول بنانے کی کوشش کی لیکن جے یو آئی کے سابق امیر مولانا محمد خان شیرانی نے بروقت سازش کو بھانپتے ہوئے علماء اور قبائلی عمائدین کو آگاہ کیا حتی’ یہاں تک پارٹی ورکروں کو پابند کیا کہ غیر آدمی کو مہمان تک نہ ٹہراو.

انتظامی طورپر ضلع زیارت کا زیادہ ترحصہ لیویز کی عملداری میں آتا ہے ، یہاں کے باشندوں کا گزربسرزراعت اور مالداری پر ہے، اورتعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد گورنمنٹ ملازمت سے وابستہ ہے بدقسمتی کی انتہاء تو یہ ہے کہ زیارت کی سیاحتی فضاء اور قدرتی حسن پرکسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی اور سیاحت کے فروغ تو دور کی بات ہے سنگل روڈ کو صحیح پختگی اور وسعت نہ دے سکے. یہاں کے لوگ دین دار اور سیاسی شعور رکھنے والے ہیں ہمیشہ شخصیات کی بجائے نظریات کو ترجیح دیتے چلے آئے ہیں. پی بی 7ہمیشہ جے یو آئی جیتتی آئی ہے 1988میں یہاں سے جمعیت کے امیدوار مولوی جان محمد مرحوم کامیاب ہوئے ، 1990میں جمعیت کے امیدوارمولانا نیاز محمد دوتانی مرحوم کامیاب ہوئے.

Elections

Elections

2002میں یہاں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد51940تھی جن میں 20544ووٹ کاسٹ ہوئے اور پولنگ کی شرح 39.6فیصدرہی جے یو آئی کے مولوی نور محمد مرحوم نے 10244ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار حبیب الرحمن کو 4302ووٹ ملے تھے. 2008میں کل ووٹ 66808رجسٹرڈ تھے پشتونخوامیپ کے بایئکاٹ کے باعث کل رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف 31.21فیصدووٹ کاسٹ ہوئے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار عبدالصمد اخوندزادہ نے 9947ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ کے امیدوار نور محمد دمڑ 7506لے کر دوسرے نمبر پر رہے.

2013 کے انتخابات میں یہاں کل 51742ووٹ رجسٹرڈ تھے جن میں 63.42فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے اول ، دوم، سوم آنے والے امیدواران کا تعلق قبائلی طور پر دمڑ قبیلے سے تھا جبکہ جماعتی بنیاد پر مذہبی ووٹ زیادہ ریکارڈ پر آیا نتائج کے مطابق ڈالے گئے کل ووٹوں کا 67فیصد جمعیت کے دونوں دھڑوں کوملا جبکہ پشتونخواہ میپ کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 28فیصد بنتا ہے جے یو آئی کے گل محمد دمڑ نے 11521ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ جمعیت نظریاتی کے امیدوار نورمحمد دمڑ 10037لے کر دوسرے نمبر پررہے اسی طرح تیسرے نمبر آنے والے پشتونخواہ میپ کے سردار حبیب الرحمن دمڑ نے 9020ووٹ حاصل کئے. (بلوچستان کا پارلیمانی تناظر) دل چسپ بات یہ ہے اس مرتبہ اصل تینوں مقابلین کا تعلق ایک ہی قبیلے یعنی دمڑ سے ہے . اصل مقابلہ جمعیت کے امیدوار گل محمد دمڑ کے صاحبزادے خلیل الرحمن دمڑ اور تحریک انصاف کے امیدوار نور محمد دمڑ کے درمیان ہے جبکہ بلوچستان حکومت میں شامل پشتونخواہ میپ کے امیدوار حبیب الرحمن دمڑ بھی مقابلے کی پوزیشن میں ہیں.جمعیت کے امیدوارکے پاس بھر پور نظریاتی ووٹ بنک موجود ہے تاہم ان کے ووٹرزاس انتخاب میں کس قدر دل چسپی رکھتے ہیں یا وہ خود انتخابی مہم میں لوگوں کو کس قدر موٹیویٹ کرسکے ہیں وہ تو الیکشن کے دن معلوم ہوجائے گا کہ جمعیت کی پکی اور بنیادی نشست کس کروٹ کی لیڈ پہ رکھے گا؟ ان کواے این پی اور پی پی پی کی حمایت بھی حاصل ہے.

تحریک انصاف کے امیدوار نورمحمد دمڑ اپنی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ بنک رکھتے ہیں وہ پہلے مسلم لیگ اور جمعیت نظریاتی کے ٹکٹ پر بھی الیکشن لڑچکے ہیں اور ان کے شخصی ووٹ میں کمی نہیں آئی اس وقت وہ جے یو آئی اور پشتونخواہ کے اندرونی کمزور ڈسپلن کا فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریں گے ان کی جیت جانے کی صورت میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال میں بڑی ہلچل پیدا ہوسکتی ہے اور آئندہ انتخابات پر گہرے آثرات مرتب ہوں گے بلوچستان اسمبلی کے وہ اراکین جو ہر الیکشن میں ذاتی تشخص کی بنیاد پر مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر جیتتے آئے ہیں وہ تحریک انصاف جوائن کرکے بلوچستان کی سیاست پر اثرانداز ہوجائیں گے. پشتونخواہ میپ کے امیدوار حبیب الرحمن کے جیتنے کے چانسز کم ہیں تاہم جیتنے کی صورت سرکاری وسائل کے استعمال کے الزامات سننے کیلئے تیار رہیں.

Abdul Ghani Shahzad

Abdul Ghani Shahzad

تحریر : عبدالغنی شہزاد