اک واری فیر شیر

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: سکندر شاہین
نیب کی حکومت مخالف کاروایوں اور نواز شریف کے نیب کے خلاف بیانات سے جہاں حکومت مخالف پارٹیاں غصے اور خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔وہاں آج کل ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے اینکر پرسن کی بھی چاندی ہے۔ہر آدمی اپنی دکان مختلف چینلز پر کھول کے بیٹھا ہے۔کوی 7 بجے کوی 8 بجے کوی دس بجے کہ نیب ٹھیک کہ رہا ہے یا حکومت معصوم ہے۔

تصویر کا اگر دوسرا رخ دیکھا جاے تو نواز شریف اس دفعہ تیسری مرتبہ حکومت میں ہیں۔اور تیسری حکومت چلاتے ہوے ظاہر ہے انہوں نے اپنے ماضی سے کچھ نہ کچھ سبق تو سیکھا ہوگا۔
سن پہلوانی میں ایک داو ہوتا ہے جسے دھوبی پچھاڑ کہتے ہیں۔اسے ادھر داو آذمانے کی دعوت دیتا ہے جہاں وہ مضبوط ہوتا ہے جب کہ دوسرا پہلوان اس داو کو کھیلتا ہے تو پہلا وار دوسرے کو چت کر دیتا ہے۔بالکل اسی طرح نواز شریف صاحب کو خود تو اتنی عقل و دانش نہیں ہے مگر ان کے سیکر ٹری صاحبان اور دوسرے کنگ میکرز انہوں نے جناب وزیراعظم صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ آپ نیب کو اپنے مخالف کر لیں اور ا پنے خاندان اور اپنے وزرائ کے اوپر جو جو ان پر کیس بنے ہوے ہیں۔ان کے اوپر ورک آوٹ شروع کر وا دیں۔

NAB

NAB

کچھ دن کے بعد اپنی صفای میں بیانات جاری کرنا شروع کر دیں اور نیب کے اوپر کڑ ی تنقید کرنا شروع کر دیں۔کچھ عرصے کے بعد حکمران پارٹی مخالفین کی فایلیں بھی نیب سے کھلوانا شروع کر دیں اور پھر جب آپ کے مخالفین واویلا کرنا شروع کر دیں گے اور وہ یہ کہیں گے کہ حکومت ہمارے خلاف انتقامی کاروایاں کرنے پر اتر آی ہے۔تو آپ کے پاس بھی معقول جواز ہوگا کہ بھء نیب ایک شفاف ادارہ ہے اور کلی طور پر ایک خودمختار ادارہ ہے۔اور نیب نے تو حکومت اور حکومتی وزرائ کو نہیں بخشا تو وہ کسی اور کو کیسے چھوڑ سکتی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کو یہ دھوبی پچھاڑ مارنے کی ضرورت اب کیوں پیش آی ہے۔

ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ نیب کے چیرمین کی تعیناتی 2013 میں ہوی۔آج 2016 ہے اور 2018 میں الیکشن متوقع ہیں۔اس دو سال کے بھی کم عرصے میں حکومت نے جو بھی اقدامات کرنے ہیں۔جن کی بنیاد پر وہ اگلے آنے والے الیکشن میں ووٹ لینے کا کوی جواز پیدا کر سکتے ہیں۔اور لاہور کی اورنج لاین ٹرین بھی 2017 میں مکمل ہو جاے اور اس کے ساتھ ساتھ جو اور پراجیکٹ جو کہ حکومت نے شروع کیے ہیں مگر جن کی تکمیل موجودہ حکومت میں ھوتی شاید مشکل ہے۔کیونکہ جناب نواز شریف صاحب کو پتہ ہے کہ پاکستانی عوام بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتی ہیں۔ نہ کوی عقل اور نہ ہی کوی دانش۔اور اگلے الیکشن میں ان کا رناموں کو دکھا کر ووٹ حاصل کرنا کوی بڑی بات نہیں اور یہی نعرہ اگلے الیکشن میں کام آ سکتا ہے۔کہ۔ اک واری فیر شیر

تحریر: سکندر شاہین