وجود ذات میں اترے

وجود ذات میں اترے اسکی تلاش میں جب
وہ تو کنکر ہے جسے موتی سمجھ کے نکالا ہے

اس ظلمت سے ابھرتا نہیں خورشید کبھی
جس کے راج میں اندھیرہ کبھی اجالا ہے

ادھر سمٹتے ہیں ادھر بکھر جاتے ہیں
ہمیں تو فرقت دوران نے مار ڈالا ہے

کبھی گریز،کبھی برہمی،کبھی بے خو دی
اس کی فطرت کا ہر رنگ ہی نرالا ہے

اس کی نیت کا فرق بھی صاف ظاہر تھا
کتنی لغزشوں کو عمر بھر سنبھالا ہے

وہ تو پردہ اسرار میں لپٹا ہی رہا
جس کے وجود کو میں نے لفظ لفظ ڈھالا ہے

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی