قابل رشک لیڈر

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ
وہ ایک انتہائی پرکشش نوجوان تھا ۔دراز قد ،دبلے پتلے نفیس شخصیت کا مالک،چہرے سے ذہانت ٹپکتی تھی۔ایک دل کش،دلاویزاور باقار شخصیت کے مالک اس نوجوان کو معاشرے نے پر سکون اور آرام دہ زندگی بسرکرنے کے لیے وسائل فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔یہ 1896ء کی بات ہے جب یہ نوجوان اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا۔گھر پہنچنے کے فورا بعد اسے پتا چلا کہ خاندانی کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور بہت سے اداروں کی بڑی بڑی رقوم اس کے والد کے ذمے ہیں۔والد نے اپنے ہونہار بیٹے کو پاس بلایا اور کہا”میرے بیٹے ،میرے تمام خواب بکھر چکے ہیں۔میں نہیں جانتاکہ تم پر اور تمہارے چھوٹے بہن بھائیوں پر کیا بیتے گی۔میری صحت پہلے ہی برباد ہو چکی ہے مجھے نہیں معلوم میں کب تک زندہ ہوں” سعادت مند بیٹے نے کہا”ابا جان آپ فکر نہ کیجیے میں سخت محنت کروں گا،آپ کا اور آپ کے کنبے کا خیال رکھوں گا۔میں جوان ہوں میری ساری زندگی پڑی ہے میں پیسے کمائوں گا اور اپنے خاندان پر واجب الادا تمام قرضے ادا کروں گا”۔مایوسیوں نے اس نوجوان پر آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیاحوصلہ مگر اس نے نہیں ہارا۔دن رات اپنی آرزئوں کی عدم تکمیل کی چھبن اسے سونے نہیں دیتی تھی۔

پھر ایک وقت ایسا آیا اس نوجوان کو اس کے ٹیلنٹ،سچائی ،ایمانداری کی بناء پر کامیابی کی سیڑھی پر مضبوطی سے قدم جمانے کا موقع ملا۔بوڑھے باپ کے اس بیٹے نے اپنے باپ سے کیے گئے تمام وعدے سچے کر دکھائے اس نے پتھر کی لکیروں میں اپنی محنت کے بل بوتے پر رنگ بھر دیے تھے۔اس نوجوان کی کہانی اتنی سادہ بھی نہیں تھی ،اس کے پیچھے وہ دردناک کتھا تھی جسے بیان تو کیا جاسکتا مگر محسوس نہیں کیا جاسکتا۔چند سالوں بعد اسی نوجوان کے لیے مفکر پاکستان نے اپنی ایک مجلس میں کہامسٹر جناح کو اللہ نے ایسی خوبی دی ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی کسی نے پوچھا وہ خوبی کیا ہے تو انگریزی میں فرمایا
He is incorruptible and unpurchaseable.

قانون کے پیشے سے منسلک ہوئے تو دیانت داری کی عظیم مثالیں قائم کیں،سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو مخالفین بھی ان کی عظمت کی داستانیں بیان کرنے لگے۔یہ عظیم انسان ہمارے قائد تھے جنہیں ہم آج قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب قائد کی صحت بری طرح گر رہی تھی۔کھانا پینا تقریبا بند ہو چکا تھا۔ایک سلائس صبح کھاتے ایک شام کو دودھ میں بھگو کر دیا جاتا۔بینائی تقریبا جواب دے چکی تھی۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنے عظیم بھائی اور کرنل الہی بخش اپنی زندگی کے عظیم ترین مریض کی گرتی ہوئی صحت سے پریشان تھے۔جب نقاہت حد سے گزرنے لگی تو معالج اپنے مریض کی خوراک کے بارے میں سوچنے لگے۔اس دوران انہیں بتایا گیا قائد اعظم بمبئی میں ”کپور تھلہ برادرز” کے کھانے بہت پسند کیا کرتے تھے۔

Emigrants

Emigrants

تقسیم ہند کے بعد یہ برادرز ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور ان دنوں پنجاب کے کسی شہر میں رہائش پذیر ہیں۔کرنل الہی بخش نے فورا کراچی بات کی جہاں سے پنجاب کو کپور تھلہ برادران کو ڈھونڈنے کا حکم جاری کیا گیا۔ادارے حرکت میں آگئے دو دن بعد ان دونوں بھائیوں کو پنجاب کے شہر فیصل آباد سے برآمد کر کے زیارت بھجوایا گیا۔اگلے دن جب قائد اعظم کو کھانا پیش کیا گیا انہوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا،شام میں کھانے کے بعد قائد نے اپنے سٹاف سے پوچھایہ آجکل میرا کھانا کون بنا رہا ہے؟قائد کے ذاتی معالج الہی بخش صاحب فخر کے ساتھ آگے بڑھے اور کپور تھلہ برادران کی فیصل آباد سے زیارت تک پہنچنے کی تفصیل سناڈالی قائد کا یہ سننا تھا کہ ان کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا انہوں نے فورا کپور تھلہ برادران کو طلب کیا ان کا معاوضہ اور فیصل آباد سے زیارت تک کے سفر پر آنے والے اخراجات کا چیک کاٹا،وہ چیک خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا اور کہا”ایک غریب ملک کا غریب گورنر جنرل اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا”دنیا بھر میں مسلمانوں نے نہ صرف قائد اعظم کے انتقال پر سوگ منایا، بلکہ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی۔ کراچی میں نماز جنازہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے ممتاز راہ نما علامہ شبیر احمد عثمانی نے فرمایا، ”وہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد دوسرے عظیم مسلمان تھے۔”

پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد اعظم کے دست راست نوابزادہ لیاقت علی خان نے کو قوم کے نام اپنے نشری پیغام میں کہا، ”اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کو ایک ایسے وقت میں ہمارے درمیان سے اٹھالیا ہے جب کہ ہمیں ابھی اپنی قومی بقا کے دشوار ترین مراحل میں ان کی راہ نمائی کی اشد ضرورت تھی۔ ہم کو اس موقع پر سامنے عہد کرنا چاہیے کہ ہم غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اس عظیم مقصد سے وابستہ ہوجائیں گے، جس کے لیے قائد اعظم نے حصول پاکستان کے بعد خود کو وقف کردیا تھا۔ اور وہ عظیم مقصد یہ ہے کہ ہم اس نومولود مملکت کو عظیم اور طاقت ور ملک بنائیں گے۔”برطانیہ کے شہنشاہ کنگ جارج نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام ایک تعزیتی ٹیلی گرام میں کہا، ”مجھے اور ملکہ کو آپ کے عظیم بھائی اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کی خبر سن کر شدید صدمہ پہنچا۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ کے لیے بھی اور پاکستان کے عوام کے لیے بھی، جن کے وہ عظیم راہ نما تھے۔” برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ آر ایٹلی نے کہا کہ قائداعظم کے انتقال سے پاکستان اپنے عظیم ترین شہری سے محروم ہوگیا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کے بعد گورنر جنرل کے عہدے پر متمکن ہونے والے راہ نما خواجہ ناظم الدین نے کہا،”عظیم لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ قائداعظم بھی تاریخ اور پاکستان کے دوام و ثبات تک زندہ رہیں گے۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ قائداعظم ہماری قوم میں پیدا ہوئے اور ہم نے ان کی بے مثل قیادت میں پاکستان حاصل کیا۔” ایک مرتبہ ایک موکل آپ کے پاس آیا اور ایک کیس میں مشورے کے لیے دس ہزار فیس دینے کا وعدہ کیا،آپ نے کہا میںگھنٹوں کے حساب سے فیس لوں گا ۔جناح نے کیس کی فائل کا مطالعہ شروع کیا۔مطالعہ مکمل کرنے کے بعد جب موکل مشورے کے لیے آیا تو طے شدہ طریقے کے مطابق ساڑھے تین ہزار روپے رکھ کر باقی اسے واپس کردیے۔آج ڈھونڈنے پر بھی ایسے قانون دان نہیں ملتےدل میںاک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش ہم اس قابل رشک لیڈرکے دن منانے کی بجائے اس قائد کے افکار اپنانے پر زور دیتے۔۔۔!

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ