ماحولیاتی عالمی دن

Tree

Tree

تحریر: عظمی شاہ

آو پیڑ لگائیں
آو بچائیں
اس دھرتی کو کمہلانے سے
برساتوں کو رُک جانے سے
ہرے بھرے ہر منظر کو
دھویں کے اندر کھو جانے سے
اس دھرتی کو خوب سجایئں
آئو ہ سب پیڑ لگائیں۔۔

سرسبز و شاداب اور گھنے درخت خوبصورتی کا ایسا روپ ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ سوچیے اگر دنیا بھر میں اُگے درخت اور سبزہ ختم ہو جائے تو دنیا کیسی دکھائی دے گئی درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے صدقہ جاریہ سے مراد وہ اعمال ہیں جن کی خیروبرکت کا فائدہ لوگوں کو مسلسل پہنچتا رہتا ہے۔ حتی کے ایسا عمل کرنے والے کو اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا اجر ملتا رہتا ہے۔ ہمارے نبیۖنے فرمایا کہ سات باتیں ایسی ہیں جن کا ثواب بندے کی موت کہ بعد بھی جاری رہتا ہے۔

“جس نے علم سکھایا۔ نہر بنوائی۔کنواں کھدوایا۔درخت لگوایا۔مسجد بنوائی۔کسی کو قران کے مصحف کا وارث بنایا۔اولاد چھوڑی جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے استغفار کرتی ہو۔بہت سارے اصحاب کی ہمیں بہت ساری احادیث مبارکہ ملتیں ہیںجس میں ہمیں درخت کی اہمیت کا احساس دلایا جاتا ہے۔” حضرت جابرسے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے پھر اس سے جو بھی کھایا جاتا ہے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے جو اس سے چوری کیا جاتا ہے وہ بھی صدقہ ہوتا ہے،جو درندے کھاتے ہیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے،جو پرندے کھاتے ہیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے۔الغرض جب بھی کوئی مخلوق اس کو استعمال کر کے اس میں کمی پیدا کرتی ہے وہ صدقہ کہلاتا ہے۔(صیح مسلم)حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے فرمایا اگر قیامت قائم ہو نے والی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کجھور کا پودا ہو اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے گاڑھ سکتے ہو تو اسے گاڑھ دینا چایئے۔

World Environment Day

World Environment Day

ماحولیات کا عالمی دن ہر سال ٥ جون کو نایا جاتا ہے ۔جس کا مقصد ہوتا ہے کہ ماحول سے متعلق مثبت پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے اور یہ عالمی سطح پر نہا یت بڑے اور وسیع پیمانے پر منایا جانے والا دن ہے اس دن کا آغاز ١٩٧٣ میں ہوا جس کامقصدعالمی سطح پر ماحولیات سے متعلق آگہی میں اضافہ کرنا ہے یہ ہمیں اس دن کا احساس دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمین کی صورت میں ایک خوبصورت تحفے سے نوازا ہے مگر افسوس ہم اس خوبصورتی کو بھول چکے ہیں۔ اس عالمی دن کی بدولت ہم ماحولیاتی مسائل سے آگہی حاصل کرتے ہیں رحمان حفیظ نے بہت خوبصورت الفاظ میں درخت کی شفقت انسان سے بیان کی ہے۔

اسے بھی مامتاکہیے تو سچ ہے
جو شفقت پیڑکی ہے آدمی پر۔

درخت سیلابوں اور طوفانوں میں مددگار ہوتے ہیں یہ صدیوں سے آزمودہ فارمولا ہے جو مختلف ملکوںمیں استعمال ہورہا ہے کہ شہر کے اردگرد درختوں کی باڑلگا دی جاتی ہے تاکہ طوفانوں کی رفتار میں کمی آجائے اور اس نقصان سے بچا جائے جو درختوں کی غیر موجودگی میں ہوتا ہے۔یعنی قدرت کا کرشمہ ہی اس کو کہیں گئے کہ درخت ہم پر آنے والی مصیبتوں یا ہمارے ہونے والے نقصان کو اپنے سر لے لیتے ہیں۔یعنی درخت انسان اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھیوں اور طوفانوں سے ہونے والی تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھتے ہیں۔

اگر کوئی انسان اپنے گھر کے پاس ایک درخت لگاتا ہے تو اُس کے بے شمار فوائد ہیں جیسا کہ ایک سایہ دار درخت تقریبا ٢٠ ڈگری تک گھروں اور عمارتوں کے درجہ حرارت میں کمی لا سکتے ہیں۔درخت آکسیجن کو خارج کر کے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہمارے ماحول کو اور ہوا کو صاف رکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔اایک جگہ میںنے پڑھا تھا کہ ایک ایکڑرقبہ پر موجود درختوں سے پیدا ہونے والی آکسیجن کی سالانہ مقدا ر ٨ ١ افراد کے لئے کافی ہے۔اور یہی درخت ہوا میں سے تقریبا٢٠٦ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ختم کرتے ہیں۔ایک نئی ریسرچ کہ مطابق ایک ایکڑ پر موجود درخت ایک سال میں ٨٧٠٠ میل کا فاصلہ طے کرنے والی گاڑی سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈکو جذب کرتے ہیں۔درخت آواز کی راہ میںرکاوٹ بن کر صوتی آلودگی میں بھی کمی کا باعث بنتے ہیں۔

Forest

Forest

درختوں کے بے شمار فوائد ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔اگر معشیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جنگلات کسی بھی ملک کی معشیت کا لازمی جُز ہیں۔ متوازن اور مستحکم معشیت کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے ٥٢ فصید رقبے پر جنگلات ہوں درختوں کا موجودہونا قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہمارے ملک یعنی پاکستان کا ٹوٹل ٤٠٥ فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے یہ رقبہ اس لئے کم ہے کہ درختوں کی بے رحمانہ کٹائی بھی کی جا رہی ہے۔اور ہر سال دریا بھی کاٹائی کا کام کرتے ہیں۔میرے خیال میں یہ بے حد ضروری ہے کہ درختوں کو زیادہ سے زیادہ لگایا جائے بلکہ مزید زمین کو مختص کیا جائے اس کام کیلئے تاکہ درخت زیادہ سے زیادہ ہوں۔ جنگلات ہماری زمین کی زرخیزی کو قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں اس کے علاوہ جنگلات درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے موسم کو خاص طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔درختوں سے زمین کہ حسن و د دلفریبی میں اضافہ ہوتا ہے۔درخت ہمارے وسائل کا بہت بڑا ذریعہ اور ماخذ ہیں مثلا درخت سے حاصل کردہ لکڑی فرنیچر ،کاخذ، ماچس اور کھیلوں کا سامان تیار ہوتا
ہے۔

جنگلات جنگلی حیات کا ذریعہ اور سبب بنتے ہیں۔بہت سے چرند پرند کا ٹھکانہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے بھی پرندوں کے رہنے کا سبب یا ٹھکانہ درخت کو ہی منایا ہے۔غرضیکہ ہر اعتبار سے اگر سوچیں چاہے وہ جانور ہوں یا انسان ہوں یا پرندے درخت سب کے کا م آتے ہیںاور کسی ایک صورت میں یہ کا م نہیں آتے بلکہ ان کی جتنی بھی صورتوں کو گنا یا بتایا جائے وہ کم ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصر
تمام رات پرندے زمین پر بیٹھے رہے

درخت تفریحی مقامات کو خوبصورت بنانے اور حسین مناظر میں تبدئل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں کیونکہ لوگ ان حسین مناطر سے ہی لطف اندوذ ہوتے ہیں۔یہ ہماری زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔مختلف لوگوں کہ مختلف نظریات ہیں کہ درخت ڈپرشن میں بھی کی کرتے ہیں لیکن میرا پرسنل تجربہ یہ ہے کہ قدرتی خوبصورتی نہ صرف آپ کی ذہنی تشنگی کم کرتی ہے بلکہ آپ کی سوچ کو بدل دیتی ہے آپ مثبت سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔اور آپ خود کو قدرت کہ ساتھ محسوس کرتے ہیں ایک عجیب سے طاقت کا احساس ہونے لگتا ہے۔اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اس کہ تخلیق کرنے والے کی سوچ یں گم ہوجاتا ہے اور دنیا سے ہی بے پرواہ ہوجاتا ہے۔اگر ان سب باتوں پر غور کیا جائے تو آپ کو احساس ہو کا کہ ان سب تبدیلیوں میں کوئی منفی تبدیلی نہیں۔

Environment

Environment

ماحولیات کے عالمی دن کے سبب ہم ماحولیاتی مسائل سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔ماحولیات کا عالمی دن زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کا دن ہے تاکہ وہ مل کر اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے صاف ستھرا سر سبزوشاداب اور روشن ماحول یقینی بنائیں ۔یہ ہمیں سال بھر کے سفر میں ایک دن کے رُکنے کی دعوت دیتا ہے اوہماری توجہاپنی طرف راغب کرتا ہے تاکہ اپنے ماحول کا جائزہ لے سکیں یہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مگر ہم سے جو بھی ہو سکے ہم اپنے ماحول لے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنے کا وعدہ کریں ماحول کا تحفظ ہر شخص اور ہر ملک کی ذمہ داری ہے اس کے یحفظ کے اقدام کی ہر ایک کہ اپنی ذمہ داری ہے اس دن کہ موقع پر تمام اقوام عالم ایک چھتری کے تلے جمع ہوتی ہے اور سنجیدگی کے ساتھ ماحول کے محافظ کے طور پر اپنے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔

تحریر: عظمی شاہ۔ اسلام آباد