جڑتے ہیں خدا سے یوں جڑنے والے

Eunuchs

Eunuchs

تحریر: ظفر اقبال ظفر
جڑتے ہیں خدا سے یوں جُڑنے والے
ایک خواجہ سرا کی حقیت پہ مبنی داستان زندگی
یہ حقیقت پہ مبنی ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جس نے معزز خاندان کے شریف گھرانے میں جنم لیا تووالدین نے اسے محمود انجم کا نام دیا خدا کی ظرف سے جنسی کمزوری میں مبتلا زمین پہ آیااس کے جسم میں عورت مرد کی ملی جلی کیفیت پائی گئی جسے معاشرہ خواجہ سرا کے نام سے پہچانتا ہے جسمانی طور پہ مرد اور اندرونی طور پہ عورت والی کیفیت نے اسے ،نا، مردوں میں جگہ دی نا عورتوں میں حوس کے پجاریوں کے سوا اسے کوئی پسند نہیں کرتا تھا ایسے میں والدین کی فکر وپریشانی میں اضافہ ہوا معاشرہ ان کو اُس غلطی کی سزا دے گا

جو انہوں نے کی ہی نہیں والدین اپنی عزت میں کمی اور نظروں میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے معاشرئے سے عجیب سے احساس کمتری لئے خدا نے دعا گو رہتے کہ اے اللہ تو دلوں کے حال سے واقف ہے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں پھر بھی ہمیں معاف فرما اور ہماری عزت محفوظ فرما اس کشمکش میں ان کا عورت نما بیٹا وقت کی رفتار کے ساتھ جوان ہوتا گیا تو اس کے اثرات نمایاں ہوتے گئے محمود جوان ہوا شریف لوگوں کے طنز اور حوس کے کھیل کاشکار ہوتا ہوا اپنے جیسی مخلوق کے ہتھے چڑھ گیااور گھر چھوڑ کر منڈی بہائو الدین سے کراچی آگیا محمود خواجہ سرا ٹیم کے ساتھ جڑ کر ڈانس کی پریکٹس کرتے آرٹسٹ بنا یہ بائیس(22) سالہ محمود اب ہمیرا بن چکا تھا۔

Parents

Parents

ہمیرا فنکارہ زندگی کے( 17)سال کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں اپنے فن کے مظاہرہ کی زریعہ آمدن سے اپنی ضروریات پوری کرتارہا کبھی اپنے والدین سے ملنے آتا تو مردوں کے حلیے میں آتا اور واپس اپنی رنگین دنیا میں لوٹ جاتامحمود سے ہمیرا بنے اس بچے کے والدین اس کی زندگی سے ناپسندگی کرتے ہوئے اس کی ہدایت کی دن رات دعائیں کرتے ہوئے اسی کشمکش میں مبتلا اپنے بچے کی ہدایت کی خواہش لئے دنیاسے رُخصت ہو گئے 40 سالہ محمود پر اپنے والدین کی موت کا گہرا اثر ہوا اور وہ جسمانی کمزوری میں مبتلا اپنے گھر کے بستر پہ اپنے ماں باپ کی خواہش و تمنا سوچتے سوچتے بلڈ پریشر میں مبتلا بے جان جسم کی کیفیت لئے موت کے احساس میں اک گہری فکر مندی کے ساتھ خوف خدا میں اپنے ماضی وحال کے متلق کئی لمہات تک سوچتا رہا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آخرکیا کرئے خدا سے توبہ استغفار کرتے کرتے اپنے والدین کی خواہش و تمنا جیسا بننے کے لیے خدا سے ہدایت اور معافی کے لیے گڑگڑاتا روتا رہا میرا اللہ گنہگاروں پہ اپنی خاص رحمت رکھتا ہے اور جس کے پیچھے والدین کی دعائیں ہوں

وہ کیسے مایوس رہ سکتا ہے خدا نے ہمیرا کے دل کی دنیا بدل دی او ر اسے محمود انجم کی زندگی جینے کی امید دی ابتدا دی اس کا دل اور دامن دھو کر ہدایت کا خزانہ عطا فرمایا ناچنے والا جسم نماز ی بنا میک اپ والا چہرہ سنت رسول ۖ سے سجا محمود اب محبوب خدا ۖ کی سنتوں کو پورا کرنے والا بنا آج چھ (6)برس سے زیادہ وقت گزر چکا ہے محمود نے کبھی خواجہ سرا زندگی میں نہیں جھانکا بس اک پچھتاوئے کی سوچ سے سوچا ضرور ہے جو اسے اور بھی خدا کے قریب کرتا ہے محمود بغیر زریعہ آمدن کے اللہ پہ توکل رکھ کرجی رہا ہے اور اپنے ماضی کے ساتھیوں سے بھی التجاہ کرتا رہتا ہے کہ تم مجھے اسٹیج پہ ڈانس کے لیے لے کر آئے میں تمہیں مسجد سے للہ تک آنے کی دعوت دیتا ہوں محمود نے اپنے گناہوں کا کفارا ادا کرنے کا رستہ چُنا ہوا ہے کہ لوگوں کو اللہ سے ملانے کے لیے دین کی محنت تبلیغ ہی اب اسکی باقی زندگی کا مقصد ہے محمود نے مجھے بھی نماز کی دعوت دی اور اُمت کو یہ پیغام دیتا رہتا ہے کہ خدا نے مجھ جیسے انسان کو ہدایت دے کر دین کے کام کے لیے چُنا ہے تو مکمل جسمانی صحت رکھنے والے کیوں نہیں یہ نیک کام کر سکتے محمود اب کھاتے پیتے زندگی کی لذتوں سے مالا مال بے نمازی جو بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

Trustworthiness

Trustworthiness

ان کو دیکھ کر آبدہ ہو جاتا ہے محمود یہ سمجھ چکا ہے کہ جس خدا نے ساری کائنات انسان کے لیے اور انسان کو اپنے لیے بنایا ہے وہ میرے جیسے گنہگار پہ نظر کرم کرنے کے لیے کسی کا محتاج نہیں وہ دوسروں کے لیے اپنی رحمت سے پیچھے کیوں ہٹے گا ساری اُمت کے لیے دُعا گو اس انسان محمود انجم مجھ سے اتفاقی طور ملا میرے بوتیک کے ساتھ والی دوکان پر امانت واپس کرنے آیاتھا مگر وہ دوکان بند تھی تو میرے حوالے کر گیااگلے دن جب اس کی امانت میں نے دوکان والے کو دی تو اس نے لا علمی کا اظہار کر دیا کہ مجھے یاد نہیں کہ میرے کسی نے پیسے دینے ہیں مگر محمود کو نا صرف یاد تھا بلکہ فکر تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے اس امانت کو حقدار کے حوالے کیا جائے موت کا کوئی وقت مقرر نہیںحقوق اللہ اور حقوق العباد کی راہ پر پابندی سے گامزن محمود کو جب میں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں جرنلسٹ ہوں۔

تماری آپ بیتی پر کالم لکھوں گا تو اس نے تصویر لینے سے منع کر دیاکافی اصرار اور یقین دہانی کے بعد جب میں نے بتایا کہ اس کی اشاعت کا مطلب میرے جیسے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو خدا کی طرف لوٹ آنے کی یاد دہانی ہے کسی ایک انسان کے دل پر اثر ہو گیا تو ہماری مغفرت کا وسیلہ پیدا ہو جائے گا تب اس نے تصویر بنوائی محمود انجم سے معزرت کے ساتھ یہ حقیقت آپ تک پہنچا رہا ہوں خدا ہم سب کو اپنی رضا پر چلنے والا بنا دے ،آمین۔

تیرے ہی حالات سے ہے تیرا پریشان ہونا
ورنہ مشکل نہیں مشکل آسان ہونا
دوعالم پہ تیری حکومت ہو اے مسلم
تو سمجھ جائے اگر اپنا مسلمان ہونا

zafar iqbal zafar

zafar iqbal zafar

تحریر: ظفراقبال ظفر