اس نے پوچھا ہے

اس نے پوچھا ہے فون پہ مجھ سے
کیسے لگتے ہیں شام کے لمحے

اس نے یہ بات اس سے پوچھی ہے
جس کی ساری حیات گزری ہے

شام کے ملگجے سے لمحوں میں
کرب کی سر زمیںلن پر جب بھی

آرزو کے چراغ بجھتے ہیں
جب چمن کے بہار لمحوں میں

پھول کی پتیاں بکھرتی ہیں
اور اس بے بسی کے لمحے پر

چیختی کوئلوں کی سانسوں میں
ہر طرف شام پھیل جاتی ہے

شام تنہایوں میں ہوتی ہے
جب اداسی کے پھول کھلتے ہیں

مسکراتے ہوے خیالوں میں
یاد جب آہ نارسابن کر

ایک ٹوٹی ہوئی انا بن کر
ایک بجھتی ہوئی صدا بن کر

جب رگ و پے میں پھیل جاتی ہے
تو سحر ہم کو شام لگتی ہے

اور ہوں گے وہ جنہیں جاناں
شام کچھ عام عام لگتی ہے

فون پہ شام پوچھنے والے
تیری فرقت میں روشنی دن کی
میری جاں مجھ کو شام لگتی ہے

Sad Girl

Sad Girl

شاعر : آفتاب محبوب