انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے متبادل بیانیہ ترتیب دینے پر زور

Women Protest

Women Protest

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے جب کہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی جڑیں تقریباً تین دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جہاں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سرگرم ہیں وہیں مذہبی دانشوروں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مذہب اور مسلک پر مبنی تفریق کو ختم کرنے کے لیے متبادل بیانیہ ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری ادارے “پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن” نے بعض دیگر تنظیموں کے اشتراک سے پانچ روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا جس میں فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کر کے ہم آہنگی کے فروغ کے لیے متبادل بیانیہ ترتیب دینے پر زور دیا گیا۔

ورکشاپ میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ماہرین تعلیم اور سلامتی کے امور سے متعلق ماہرین شریک ہوئے جنہوں نے متبادل بیانیے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کے لیے کوششوں کو منظم کرنے پر زور دیا۔

معروف مذہبی دانشور ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے جمعہ کو گفتگو میں کہا کہ مختلف مذہبی رہنما ایک عرصے سے حکومتوں کو متبادل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے کہتے آئے ہیں اور اس ضمن میں اپنی خدمات پیش کرنے کا بھی کہہ چکے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس بارے میں حتمی اختیار حکومت وقت کے پاس ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا جواز پیش کرنے والوں کے ان کے بقول من گھڑت نظریات سے نمٹنے میں جہاں دیگر پہلو توجہ طلب وہیں متبادل بیانیہ اس میں اولین حیثیت کا حامل ہے۔

“متبادل بیانیہ تو ہے نہیں، ضرب عضب بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔۔۔اب اگر وہ بیانیہ جس پر دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردی کی بنیاد رکھی ہے اگر وہ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے تو پھر یہ تو چند مہرے پٹے ہیں جو منصوبہ ساز ہیں تو پیچھے موجود ہیں تو اس کو بھی کلیئر کرنے کی ضرورت ہے۔”

ڈاکٹر راغب نعیمی کہتے ہیں کہ متبادل بیانیے کے پرچار کے ساتھ ساتھ اسے نصاب تعلیم میں شامل کر کے ملک میں امن و سلامتی اور خوشحالی کے حصول میں مدد لی جا سکتی ہے۔

“اتنا اہم معاملہ جس پر پوری مملکت کے امن کی بنیاد ہے پورے ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد بھی اس امن پر ہونی ہے تو اس کے لیے کہیں بھی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ نصاب کا بھی حصہ بنایا جانا چاہیے جس میں لوگوں کو بتایا جائے کہ ہم نے صرف اپنے حقوق لینے ہی نہیں لوگوں کو بھی ان کے حقوق دینے ہیں اور کہیں کسی پر جبر، ظلم و زیادتی نہیں کرنی۔”

حکومت نے حال ہی میں نصاب تعلیم میں تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہوئے مختلف اقدام کیے ہیں اور اسلام کے فہم کو صحیح معنوں میں فروغ دینے کے لیے قرآن کو باقاعدہ طور پر تعلیم کا حصہ قرار دینے کا بتایا ہے۔