اگر صفائی نصف ایمان ہے تو۔۔۔۔

Bus Stop

Bus Stop

تحریر : انعم سلیم
وہ لاہور کی ایک مشہور اور معروف شاہراہ کے بس سٹاپ پر بیٹھی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔اس کی نگاہیں صاف شفاف اور چمکتی دمکتی سڑک پر مرکوز تھیں کہ اچانک اس کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جو برق رفتاری سے دوڑتی چلی آ رہی تھی ۔گاڑی کی چمچماہٹ اور خوبصورتی نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ۔لیکن جیسے ہی وہ گاڑی اس کے قریب آئی اس کی رفتار مدہم ہو گئی اور پھر اس کی نگاہوں نے دیکھا کہ کسی نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا ہے ۔ ایک خوبصورت ہاتھ باہر نمودار ہوا جس نے گند سے بھرا ایک شاپر سڑک پر پھینک دیا۔

گاڑی کا شیشہ پھر چڑھا لیا گیا اور فراٹے بھرتی وہ گاڑی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی ۔بس سٹاپ پر بیٹھی لڑکی یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئی اور غصے سے اس کا خون کھول اٹھا۔وہ سوچنے لگی کہ جاہلیت کی بھی انتہا ہے ۔ لاکھوں روپوں میں حاصل کی ہوئی اس گاڑی میں باسکٹ رکھنے کی کوئی جگہ نہیں۔ہم جو ہر وقت ترقی یافتہ ممالک کی صفائی ستھرائی کی مثالیں دیتے رہتے ہیں اور ان کی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں کبھی یہ بھی سوچا کہ ان کی عوام حکومت کا کتنا ساتھ دیتی ہے ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو اس کی آنکھوں کے سامنے ایک صاف شفاف سڑک موجود تھی۔ خاکروب سڑک پر جھاڑو پھیر کر سڑک کو شیشہ کی طرح چمکا چکا تھا لیکن ایک جاہل کے قابل مذمت عمل نے اس سڑک کو گندہ کر دیا ۔

Pakistan's cleaning

Pakistan’s cleaning

اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے بڑے شہروں میں صفائی کا قدرے بہتر نظام موجود ہے لیکن عوام اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے ۔ویسے بھی اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن پھر بھی صفائی کی جانب اس قدر توجہ نہ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ہم سب یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ صفائی کی ذمہ داری کسی ایک مخصوص ادارے کی نہیں ہے ہم سب پر فرض ہے کہ پیارے وطن کی سڑکوں اور شاہراوں کو صاف رکھیں۔یا د رہے تعلیم صرف ڈگری کے حصول کا نام نہیں ہے تعلیم جہاں ہمیں معاشرتی شعور بخشتی ہے وہیں وہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ ارض وطن کو کیسے صاف شفاف رکھنا ہے ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن تعلیم ہماری ذات کو تبدیل نہیں کر پائی ۔

حکومت کی جانب سے سڑکوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ کوڑے دان نصب ہیں اور ان پرو اضح الفاط میں لکھا ہوا ہے ۔use me لیکن پھر بھی اکثریت جو تعلیم یافتہ تو ضرور ہے لیکن عقل کے اندھے ہیں وہ دو قدم چل کر ان کوڑا دانوں کو استعمال کرنا گوارا نہیں کرتے بلکہ جہاں کھڑے ہوتے ہیں وہیں گند پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ہم مسلمان ہیں صفائی ہمارے ایمان کا حصہ ہے لہٰذا ہم سب کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ۔ اور جب ہر شخص گندگی کو وہیں رکھے گا جہاں اس کا مقام ہے تو صاف شفاف پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا ۔

تحریر : انعم سلیم