کیا کیا چہرے تھے جو خاک میں پنہاں ہو گئے

Junaid Jamshed

Junaid Jamshed

تحریر : شاہ بانو میر
دنیا والے ایک دنیا دار کے لباس کی تبدیلی کو اسکی زندگی کے اطوار کو اسکے صبح و شام کے بدلنے کو ڈرامہ کہتے ہیں ـ یا جو بھی ہمارے کچے نادان ذہنوں میں پنپتا ہے ـ جو کچھ ہم نے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے معاشرے سے سیکھا ہے بآسانی ایک انسان کی قربانی کا تمسخر بنا دیتے ہیںـ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ تاک میں رہتے ہیں کہ کہیں اس بشر سے کوئی غلطی ہو تو اس کی ایسی پکڑ کریں کہ اپنی دینی سوچ کو بہترین قرار دیں ـ اپنے دینی رہنما کو دنیا میں منوا سکیں کہ دیکھا وہ فلاں استاد کا دم بھرتا ہے اور یہ کہ دیا یا یہ کر دیا ـ اسکی اور اس کے استاد کی اس کی اسلامی تربیت ملاحذہ کرو ـہمارے ان ظالمانہ رویوں کا شکار وہی ہوتے ہیں جو عملی زندگی کی سنگلاغ چٹانوں کو سر کرنے نکلتے ہیں ـ کاپی کرنے والے یا آسان شارٹ کٹ والوں کو تو کوئی پاکستان میں کہتا نہیں کہ ہم نے پاکستان کو اسی آسان راہ پر گامزن کر دیا ہےـ

مگر اپنی ذات پر محنت کرنا اور صراط المستقیم جیسے بظاہر سیدھے مگر انتہائی پُرپیچ راستے کو اختیار کرنا ـ زندگی کے مشاغل رونقوں سے ہٹ کر قرآن کے سنت کے اسلام کے اصلاحی مشکل پیغامات کو سننا سمجھنا ا ور خواہشات کا گلہ گھونٹنا اور نفس پر قابو پا کر صبر کے ساتھ شکر کا سبق یاد کرنا اسے اپنے اوپر لاگو کر کے استاد کے اسباق کو کامیاب کرانا اور ثابت قدمی سے جمے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ـ جنید جمشید انہی مستقل مزاج لوگوں میں سے تھے جو الحمد للہ شیطان کے کاری حملوں کے باوجود اسلام پر تبلیغ پر جمے رہے۔

Junaid Jamshed

Junaid Jamshed

شیطان ہر وقت ان کی کی تاک میں رہتا ہے کہ لوگوں کے رویوں کو ابھار کر اس کو ان سے بد ظن کرے اور رنگینوں میں واپسی کا راستہ دکھائے ـ نئے نئے اسلام کو سمجھنے والوں کو تو ہماری شفقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ نفس میں دنیا کا غلبہ اتنا آسان کہاں ہے نکالنا ـ مگر جن کو اللہ چُن لیتا ہے اور حق کو کھول کر بیان کر دیتا ہے ان کے دلوں پر پھر وہ کہاں پلٹتے ہیں ـ مر جاتے ہیں مگر مضر رہتے ہیں اپنے رب کی وحدانیت پر ـ جنید جمشید جیسے لوگوں کیلئے کسی مشکل وقت کو ہمیشہ اور مشکل بنا دیتے ہیں جب ان کا مزاق اڑاتے ہیں ان کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر ان کا ماضی بار بار یاد دلاتے ہیں یہ ہمارے کمزور اذہان کی کمزور سوچ ہے ـ اٹھتے ہوئے شور کے اندر موجود کسی کی سسکی ہم سسنے والے کان نہیں رکھتے ـ یہی ہم نے جنید کے ساتھ کیا ایک بیان کی غلطی جس پر اللہ سے توبہ بھی اور آج اللہ نے تصدیق کر دی کہ توبہ قبول ہو گئی۔

ماہ رمضان کی ھسین و جمیل سحری اور اس پر جنید جمشید کی خوش الحانی نجانے جنت کے کن کن مدارج تک پہنچتے ہوں گے ـ جنید جمشید مولانا طارق جمیل کے عظیم فرزند نما شاگرد زندگی کو اس وقت خیر باد کہ گئے جب اسلام کی تبلیغ کیلئے ایک بڑی تعداد ان کے عقب میں موجود تھی اللہ پاک ان کے درجات کو بلند و اعلیٰ مقامات عطا فرمائے۔

قرآن پاک اسلام سے جڑنے والے ہمارے بزرگان دین اور جنید جمشید جیسے لوگ مجھ جیسے طالبعلموں کی سوچ پر سند رکھتے ہیں کہ جس اللہ کیلئے آپ دنیاوی آسائشات کو ترک کرتے ہیں اللہ پاک ایک مقررہ وقت تک آپکو آزماتا ہے جب آپ آزمائش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اللہ رب العظیم وہ تمام نعمتیں انعام کے ساتھ لوٹا دیتا ہے ـ الحمد للہ !! عملی طور پے اس کا تجربہ ہو رہا ہے ـ جنید جمشید نے زندگی کا رخ جب دین کی جانب موڑا تو ابتدائی دور میں انتہائی مشکلات سہیں مگر آج ہر آرام ہر آسائش اللہ پاک نے خوش ہو کر اس کو انعام کے ساتھ لوٹا دیں۔

Surah Al Imran Ayat

Surah Al Imran Ayat

آج جنید جمشید تو ربیع الاول کے مُبارک مہینے میں ایک پلین کریش میں آج وفات پا گئے ـ کل تک ان پر تنقید کرنے والے ضرور آج سوچ رہے ہوں گے کہ وہ ان کیلئے کیا کہتے تھے اور اللہ پاک نے آسمان سے کیسے اپنا فیصلہ نازل کر کے تمام کھلے منہ بند کروا دیے ـ یہ نشانی ہے اللہ پاک کی جانب سے کہ ان زبانوں کو خاموش رکھو کس کو میں نے بخشنا ہے اور کس کو نہیں تم فیصلہ نہیں کر سکتے ـ نہ ہی کس کے درجے بلند ہیں اس کا سوچ سکتے ہو؟ تمام تہمتوں کا الزامات کا جن کا وہ دنیا میں جواب دے کر بھی خود کو بے گناہ ثابت نہیں کر سکا ـ آج میرے سوہنے رب نے ہمیشہ کی طرح “” کُن”” کہ کر سب کچھ ثابت کر دیا ـ سوچنا تو ہوگا۔

شاندار زندگی کو چھوڑ کر سادہ زندگی کو اپنا کر اللہ سے لو لگا کر اس دنیا میں اس نے کیا حاصل کیا؟ تنقید تضحیک تذلیل ؟اس بے ضرر اچھے انسان کو نادان لوگوں نے سر عام مارا پیٹا ـ حالانکہ غلطی کیلئے رجوع اللہ سے کرنے کا حکم ہے کہ میں منتظر بیٹھا ہوں اپنے بندے کی توبہ کیلئے ـ یہ کیسا اسلام ہے؟ یہ بربریت زیادتی ظلم کیوں؟ آپ کون ہوتے ہیں بندے اور اللہ کے درمیان آنے والے ؟ آج سوچنے کا دن ہے فکر کرنے کا دن ہے اس زبان کو قابو کر کے دل بڑا کرنے کا دن ہے۔

جنید جمشید تو شہادتوں کے درجے پر سرفراز ہوگیا کہ ایک اجتماع میں شرکت کی غرض سے جا رہے تھے ـ سوچنا تو ہمیں ہے جو دنیا میں باقی رہ گئے ؟ خُدارا !! اللہ کا کام ہے فیصلہ کرنا سزا جزا دینا ہم سب کو خوف خُدا ہو تو آج ضرور سجدے میں گر کر توبہ کریں اور نیت کریں کہ راز کائنات اس ہستی کے پاس ہیں اسی کی رضا میں راضی رہیں گے ـ از خود اسلام قرآن انسان کے بارے میں کبھی زبان دراز کر کے کسی بھی اسلام پر آنے والے کی راہ میں کانٹے نہیں بوئیں گے ـ جنید جمشید آپکی زندگی کی قربانی صبغت اللہ میں ڈھال کر حتمی مہر لگا گئی کہ آپ جا بھی یہیں ہیں یادوں میں سوچوں میں نعتون میں اذکار کی محافل میں تبلیغی اجتماعات میں اور دعاؤں میں کہ شہید کبھی نہیں مرتے وہ تو جنت کے حسین مرغزاروں میں پرندون کی صورت اپنے رب سے رزق پاتے ہیں۔

جنید جمشید ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے آپ
شہادت مبارک مہینے میں مُبارک ہو
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(آمین)

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر