ناکام بغاوت کے بعد ترک قیادت کے رویے میں نرمی کے اشارے

Turkish Rebellion

Turkish Rebellion

ترکی (جیوڈیسک) ترکی میں ناکام بغاوت کے دو ہفتوں بعد صدر طیب اردوان کی طرف سے قدرے نرم رویے کی عکاسی ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور سرکاری میڈیا کے مطابق بغاوت کی کوششوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیے گئے فوجیوں میں سے 750 سے زائد کو ہفتہ کو رہا کر دیا گیا۔

تاہم اب بھی 231 فوجی زیر حراست ہیں جب کہ 1700 کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

ادھر استنبول کے میئر نے ناکام بغاوت کے دوران مارے جانے والوں کے لیے مختص ایک قبرستان سے وہ متنازع بورڈ ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جس پر “غداروں کا قبرستان” درج تھا۔

میئر قادر توپباش نے بتایا کہ یہ بورڈ مرنے والوں کے لواحقین کی دل آزادی کا باعث بنے گا اس لیے اسے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔

قبل ازیں استنبول کی مقامی حکومت جس میں صدر اردوان کی جماعت “اے کے” پارٹی کے حامیوں کی اکثریت ہے، نے رائے شماری کر کے یہ بورڈ آویزاں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ قبرستان استنبول کے مضافات میں تزلا کے مقام پر بنایا جا رہا ہے اور اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے مارے گئے ایک شخص کی لاش کو یہاں دفن کیا جا چکا ہے۔

فوج کا ایک گروپ 15 جولائی کو حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ٹینکوں کو لے کر سڑکوں پر چڑھ آیا تھا اور اس نے سرکاری عمارتوں پر قبضے کی کوشش بھی کی جسے عوام نے پولیس کی مدد سے ناکام بنا دیا تھا۔

ہفتہ کو ہی آئینی عدالت کے 60 ملازمین کو معطل کر دیا گیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک بیان میں بتایا کہ ان افراد کے بغاوت میں ملوث ہونے کا تعین کرنے تک یہ معطل رہیں گے۔ آٹھ دیگر ملازمین پہلے ہی برطرف کیے جا چکے ہیں اور وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔

بغاوت کی کوششوں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں 235 سے زائد افراد مارے گئے تھے اور جب سیکڑوں زخمی بھی ہوئے۔

بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکومت کی طرف سے کی گئی کارروائیوں میں فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکاروں سمیت ہزاروں افراد کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا۔

ہفتہ کو صدر اردوان کا کہنا تھا کہ 18699 افراد کو بغاوت سے منسلک ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے 10137 اب بھی تحویل میں ہیں جب کہ 3500 کو رہا کر دیا گیا ہے۔

صدر نے ایسے تمام افراد کے خلاف دائر مقدمات ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا جن پر ترک صدر کی توہین کا الزام تھا۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بغاوت کی کوشش کے دوران ملک میں یکجہتی سے بہت متاثر ہوئے اور یہ اقدام خیرسگالی کے طور پر کیا جا رہا ہے۔