ایمان کی حقیقت

Faith

Faith

تحریر: رانا محمد اشرف
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور کثرت سے ارشاد فرمایا ””اے ایمان والو، اے ایمان والو”سید عالم ۖ کا ارشاد ہے ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اس کے فرشتے اور اس کی کتابوں پر ایمان لائو ” ایمان کے لغوی معنی تصدیق یعنی دل سے ماننے کے ہیں اور شریعت میں اثبات ایمان کے لیے بہ کثرت احکام و اقوال اور باہم اختلاف مذکور ہے۔ معتزلہ تمام طاعتوں کو ایمان کا علم اور اس کا معاملہ کہتے ہیں ان کا مذہب یہ ہے کہ بندہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے خارج از ایمان ہو جاتا ہے خوارج کا بھی یہی مذہب ہے وہ بھی مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں اور ایک گروہ ایمان کو قول مضرد کہتا ہے، ایک گروہ صرف معرفت کو ایمان کہتا ہے اور اہل سنت کے ارباب کلام کی ایک جماعت مطلق تصدیق کو ایمان کہتی ہے

جمہورصوفیا کے نزدیک ایمان کی دوقسمیں ہیں جس طرح کہ فقہا کے نزدیک ہیں چنانچہ اہل یقین کی ایک جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ قول و فعل اور تصدیق کے مجموعہ کانام ایمان ہے ان میںحضرت فضیل بن عیاض ، بشر حانی ، خیرالنساج ، سمنون المحب، ابوحمزہ بغدادی اور ابو محمد حریری رحمہم اللہ کے سوا بکثرت مشائخ ہم خیال ہیں۔ ایک گروہ کا اعتقاد یہ ہے کہ قول اور تصدیق کا نام ایمان ہے ان میں حضرت ابراہیم بن ادہم ،ذوالنون مصری، بایزید بسطامی، ابو سلیمان درانی، حارث محاسبی ، جنید بغدادی، سہل بن عبداللہ تستری، شفیق بلخی، حاتم امم اور محمد بن فضل بلخی کے سوا بہ کثرت مشائخ اور فقہائے امت ہیں چنانچہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ پہلے قول کے قائل ہیںاور امام اعظم ابو حنیفہ حسن بن فضل بلخی اور امام اعظم کے دیگر تلامذہ جیسے امام محمد بن حسن، حضرت دائود طائی، امام ابو یوسف دوسرے قول کے قائل ہیں۔

درحقیقت یہ اختلاف لفظی ہے ورنہ معنی و مقصود میں سب متفق ہیں۔ اہل سنت و جماعت اورارباب تحقیق و معرفت کے درمیان اتفاق ہے کہ ایمان میں اصل بھی ہے اور فرع بھی۔ اصل ایمان، تصدیق قلبی ہے اور اس کی فرع اوامرونواہی کی بجا آوری ہے اہل عرب کا عرف ہے کہ وہ کسی فرعی بات کو بطور استعارہ اصل کہتے ہیں جیسے کہ تمام نعتوں میںشعاع آفتاب کو آفتاب کہا گیا ہے اسی لحاظ سے وہ گروہ طاعتوں کوایمان کہتا ہے کیوںکہ بندہ طاعت کے بغیر عذاب الہٰی سے محفوظ نہیں رہتا اور نہ محض تصدیق محفوظ رہنے کا اقتصاد ہے جب تک کہ وہ تصدیق کے ساتھ احکام بھی نہ بجا لائے ۔ لہٰذا جس کی طاعتیںزیادہ ہوں گی وہ عذاب الہٰی سے زیادہ محفوظ ہوگا چونکہ تصدیق و قول کے ساتھ ‘طاعت’ محفوظ رہنے کی علت ہے معرفت ہے نہ کہ طاعت؟اگرچہ طاعت بھی موجود ہو۔

جب تک معرفت نہ ہوطاعت فائدہ نہیںپہنچاتی لیکن جب معرفت موجود ہوا گرچہ طاعت موجود نہ ہو نتیجہ میں وہی نجات پاجائیگا اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ نجات کا حکم تحت مشیت الہٰی ہے کہ اگر وہ چاہے تو وہ اپنے فضل سے درگذر فرمائے۔ حضور اکرم ۖکی شفاعت سے بخش دے یا چاہے تو اس کے جرم کے مطابق سزا دے اور دوزخ میں بھیج دے اس کے بعد بندے کو جنت میں منتقل کردیا جائے۔لہٰذا اصحاب معرفت اگرچہ مجرم ہوں بہ حکم معرفت وہ ہمیشہ دوزخ میں نہ رہیں گے اور صرف اہل عمل جو بے معرفت ہیں جنت میں نہیں آئیں گے اس سے معلوم ہوا کہ طاعت محفوظ رہے کی علت نہیں ہوسکتی ۔ حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے ہرگز نجات نہیں پائے گاکسی نے عرض کیا یا رسول ۖ آپ بھی نہیں ؟آپ نے فرمایا ہاں میں بھی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ لیا ہے۔لہٰذا بلا اختلاف امت ،ازوئے تحقیق و حقیقت ایمان معرفت ہے اور اقرار عمل کو بجالانا ہے اور جسے خدا کی معرفت ہوگی اس کو اس کے کسی وصوف کی بھی معرفت ہوگی۔ حق تعالیٰ کے اوصاف حسنیٰ تین قسم کے ہیں۔ جمال ،جلال اورکمال ،مخلوق کو اس کے کمال کی گہرائیوں تک رسائی نہیں بخبر اس کے کہ وہ اس کے کمال کا اثبات و اعتراف کرلے اور اس سے نقص و عیب کی نفی کرے اور جو جمال حق کا معرفت میں مشاہدہ کرتا ہے وہ ہمیشہ دید کا مشتاق رہتا ہے جو جلال حق کا مشاہدہ کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے اوصاف سے متنفررہتا ہے اور اس کا دل محل ہیبت میں رہتا ہے لہٰذا اشوق محبت کی تاثیر ہے اور بشریٰ ا وصاف سے نفرت بھی ایسا ہی ہے اس لیے کہ بشریٰ اوصاف کے حجاب کا کشف عین محبت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

Islam

Islam

اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و معرفت کا نام محبت ہے اور علامات محبت طاعت ہے اس لیے کہ جب دل مشاہدے کا محل ہے اور آنکھیں دید کامقام اور جان جائے عبرت ہے تو جسم اور دل مشاہدے کا مقام ٹھہرا چنانچہ جسم کے لیے سزا وار یہی ہے کہ وہ تارک اوامرونواہی نہ ہو اور جس کا جسم تارک ہو اسے معرفت کی ہوا تک نہیں لگتی ۔ آج کل یہ خرابی صوفی نہ ہوتے ہوئے صوفی کا روب دھارن کرنے والوں میں ظاہر ہے ۔کیوںکہ ان ملحدوں نے جب اولیاء حق کے جمال کی خوبیاں دیکھی اور ان کی قدرو منزلت کو جانا تو وہ اپنے آپ کو ان کے جیسا بتانے لگے۔اورکہنے لگے یہ رنج ومشقت تو اس وقت تک تھی جب تک معرفت نہ ہو اور جب معرفت حاصل ہوگئی تو جسم سے طاعت کی مشقت جاتی رہتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ جب معرفت حاصل ہوگی تو دل شوق کا محل بن گیا ۔ اس وقت فرمان کی تعظیم اور زیادہ ہوجاتی ہے نہ کہ سرے سے ہی معدوم ؟ اگرچہ ہم اسے جائز جانتے ہیں کہ فرمان بردار اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس سے طاعت کی مشقت اٹھ جاتی ہے اور اسے بالکل بار معلوم نہیں ہوتا اور فرمان کی بجا آوری میں اسے اتنی زیادہ توفیق مل جاتی ہے کہ لوگ تو اسے مشقت سمجھتے ہیںلیکن وہ اسے بے مشقت ادا کرتا ہے۔ یہ بات اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اُس میں کمال تڑپ اوربے قرار ی پیدا ہوجائے۔

ایک گروہ کا یہ اعتقاد ہے کہ ایمان کا پتہ ”حق تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ایک گروہ کے نزدیک کلیتہ ”بندے کی طرف سے ہے یہ اختلاف ماوراء انمبر کے لوگوں میں طول پکڑگیا ہے چنانچہ جو لوگ اسے کلیتہً حق تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ خالص جبری ہیں اس لیے کہ بندہ کو چاہیئے کہ وہ اس کے حصول میں بے قرار رہے اور جو لوگ اسے کلیتہً بندے کی طرف سے کہتے ہیں وہ خالص قدری ہیں اس لیے کہ بندہ اعلام الہٰی کے بغیر اسے جان ہی نہیں سکتا حالانکہ توحید کی راہ جبرو قدر کے درمیان ہے یعنی جبر سے نیچے اورقدر کے اوپر، درحقیقت ایمان بندے کا فعل ہے جو حق تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ شامل ہے کیوںکہ جسے خدا گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لا نہیں سکتا اور جسے خدا ہدایت پرلائے اسے کوئی گمراہ نہیںکرسکتا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”جسے اللہ ہدایت پر لانا چاہے تو سینہ کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اورجسے وہ گمراہ کرنا چاہے تو اس کے سینہ کو سخت اور تنگ کردیتا ہے ” اس ارشاد کے بموجب بندے کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ ہدایت کی توفیق کو حق تعالیٰ سے اور فعل ایمان کو خود اپنے سے منسوب کرے ۔ایمان کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ بندہ دل سے توحید کااعتقاد رکھے، آنکھوں کو ممنوعات سے بچائے حق تعالیٰ کی نشانیوں اور آیتوں سے عبرت حاصل کرے کانوں سے کلام الہٰی کی سماعت کرے معدے کو حرام چیزوں سے خالی رکھے زبان سے سچ بولے اور بدن کو منہیات سے اس حد تک محفوظ رکھے کہ باطن ظاہر سے متحد ہو جائے۔

یہ سب ایمان کی علامات ہیں اس بناء پر ایک گروہ نے معرفت ایمان میں کمی وبیشی کو جائز رکھا ہے حالانکہ سب کا اتفاق ہے کہ معرفت ایمان میں کمیو بیشی جائز نہیں ہے کیوںکہ اگر معرفت میں کمی و بیشی کو مانا جائے تو معروف میں بھی کمی و بیشی لازم آتی ہے جبکہ معروف میں کمی وبیشی جائزو ممکن ہی نہیں تو معرفت میں بھی جائز نہ ہونی چاہیئے اس کی وجہ یہ ہے کہ معرفت میں نقص و کمی نہیںہوتی ہے لہٰذا یہی مناسب ہے کہ فرع اور عمل میں کمی بیشی نہ ہو البتہ باتفاق طاعت میں کمی و بیشی جائز ہے اور حشویوں کے لیے جو ان دونوں طبقوں سے نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں یہ مسئلہ دشوار ہے کیوںکہ حشویوں کا ایک گروہ طاعت کو بھی جزو ایمان کہتا ہے ایک گروہ تو صرف قول ہی کو ایمان کہتا ہے حالانکہ یہ دونوں باتیں بے انصافی کی ہیں۔

غرضکہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندے کے تمام اوصاف ، طلب حق میں مستفرق ہوں اور تمام اہل ایمان کو اس پر اتفاق کرنا چاہیئے کہ سلطان معرفت کا غلبہ نامرغوب اوصاف کو مغلوب کردیتا ہے اور جہاں جہاں ایمان ہو وہاںوہاں سے اس سے انکار کے اسباب دور ہوجاتے ہیں جیسا کہ مقولہ ہے ” جب صبح طلوع ہوجاتی ہے تو چراغ بیکار ہوجاتے ہیں”اوردن کے لیے کسی دلیل و بیان کی حاجت نہیںہوتی اسی کے ہم معنی کسی کا یہ مقولہ بھی ہے کہ ”روزروشن راد لیلے نہ پاشد ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”سلا طین جب کسی بستی پر غالب ہوکر داخل ہوتے ہیں تو اسے ویران کردیتے ہیں” جب عارف کے دل میں معرفت کی حقیقت غالب ہو کر داخل ہوجاتی ہے تو طن و شک اور انکار کی طاقت فناکردیتی ہے اور سلطان معرفت (حق تعالیٰ) اس کے حواس اور خواہشات کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے تاکہ وہ جو کچھ کرے ،دیکھے اور جو کہے سب اسی کے زیر فرماں ہو۔

Allah

Allah

حضرت ابراہیم خواص سے لوگوں نے دریافت کیا کہ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا فی الحال اس کا جواب نہیں دوں گا اس لیے کہ جو کچھ کہوں گا وہ لفظ و عبارت ہوں گے اور میرے لیے یہ ضروری ہے کہ میںمعاملہ کے ساتھ جواب دوںچونکہ میںمکہ مکرمہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اس غرض کے لیے تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تم اس کا جواب پاسکو۔ راوی کا کہنا ہے کہ میں نے ویسا ہی کیا جب میں ان کے ساتھ جنگل میں پہنچا تو ہر روز دوروتی اور دوگلاس پانی غیب سے نمودار ہوتے رہے جسے ایک میرے آگے اورایک اپنے آگے رکھ لیتے۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں ایک روز ایک بوڑھا سوار آیا جب اس نے ان کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر کر مزاج پرسی کی پھر کچھ دیر باتیں کرکے سوار ہوکر چلاگیا میں نے عرض کیا۔ اے شیخ یہ بوڑھا کون تھا؟ انھوںنے فرمایا یہ تمہارے سوال کا جواب تھا میں نے پوچھا کس طرح ؟فرمایا وہ حضرت خضر تھے انھوںنے میرے ساتھ رہنے کی اجازت چاہی میں نے منظور نہیں کیا میں نے کہا آپ نے کیوں انکار فرمایا انھوںنے جواب دیا مجھے خطرہ تھا کہ ان کی صحبت میں میرا اعتقاد حق تعالیٰ کے سوا ان کے ساتھ نہ ہو جائے۔ اس طرح میرا توکل برباد ہوجائے کیوںکہ ایمان کی حقیقت تو کل کی حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اللہ تعالیٰ ہی پر توکل رکھو اگر تم صاحب ایمان ہو” حضرت محمد بن خفیف فرماتے ہیں” ایمان یہ ہے کہ جو غیب سے اس کے دل پر انکشاف ہو اس پر یقین رکھے۔

تحریر: رانا محمد اشرف