سقوط ڈھاکہ، کتنی حقیقت کتنا افسانہ

Jamaat-e-Islami Leader Hanging in Bangladesh

Jamaat-e-Islami Leader Hanging in Bangladesh

تحریر : قادر خان افغان
بنگلہ دیش کی جنگی ٹریبونل کی متنازعہ عدالت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کئی رہنمائوں کو پھانسی کی سزا دی۔ بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971ء کے واقعات پر مسلسل جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ان رہنمائوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس پر پاکستان، بنگلہ دیش میں شدید احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں اور لاکھوں، انسان سراپا احتجاج ہیں۔ 71 ء کی پاک، بھارت جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے والی جماعت اسلامی کیساتھ بنگلہ دیش حکومت کا یہ متنازعہ رویہ اس لئے ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش بننے میں رکائوٹ پیدا کرنے والی اس جماعت کے رہنمائوں و کارکنان نے پاکستان ٹوٹنے سے بچانے کیلئے کوشش کی اور اس بنا پر بنگلہ دیشی حکومت 30لاکھ افراد کی ہلاکتوں کا دعوی کرتے ہیں اور ان ہی تمام معاملات پر یکے بعد دیگرے جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنمائوں کو مختلف واقعات و افراد کے الزام میں طویل سزائیں و پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے ،جبکہ ان معاملات کے علاوہ بنگالہ عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت پیداکرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اسی تسلسل میں بنگلہ دیش حکومت کے نزدیک 16دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باہمی تنازعات کی حل کی صورت میں 1971ء کے واقعات پر معافی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ حالاں کہ سابق پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ پاکستان 1974ء کے بعد سے اب تک کئی بار 71ء میں پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرچکا ہے جبکہ یہ وقت ماضی بھلا کر دونوں قوموں کی ترقی کے لئے آگے بڑھنے کا ہے۔سقوط ڈھاکہ متحدہ پاکستان کے ماتھے پر ایک داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا۔

بنگلہ دیش کے اس مطالبے پر حکومتی موقف اپنی جگہ درست ہوگا لیکن 71ء کے واقعات میں جس طرح فوج کوبھی ملوث بتایا جاتا ہے اس الزام میں مبالغہ آرائی بہت زیادہ ہے ۔بھارتی مصنفہ سرمیلا یوس کے اپنی کتاب “ڈیڈ ریکوننگ ، میموریز آف دی 1971بنگلہ وار”میں اکہتر کی جنگ کے حوالے سے تمام باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ” نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے ، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ کہ صرف پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا “۔سر میلا کے مطابق 1971ء کی جنگ کے حوالے سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعوی کرنا کسی طرح دانشمندی نہیں۔بھارتی مصنفہ کی تحقیق کے مطابق ڈھاکہ میں14 اور15دسمبر کو آزادی کی حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کئے جانے اور بعد میں قتل کئے جانے میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مصنفہ نے مارے جانے والے دانشوروں کے خاندان کے وہ بیانات بھی پیش کئے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام افراد کو گھروں سے لے جانے والے وہ مسلح سویلین تھے جو فوج کی حمایت کر رہے تھے ، متاثرہ خاندان فوج کے بجائے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نوجوان رضا کاروں پر مشتمل تنظیم البدر کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

اسی طرح 26-25مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کی خبر کی تردید کرتی ہیں کہ یہ درست نہیں ہے۔ بھارتی مصنفہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا ، وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔ان کے مطابق علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کو انو یڈر یا در انداز کہتے تھے جبکہ اس جنگ میں در انداز صرف ہندوستان تھا۔سرمیلا برصغیر کے معروف رہنما سبھاش چندر پوس کی پوتی ہیں ، سر میلا خود بنگالی ، بھارتی اور ہندو ہیں ۔ان کی اس کتاب نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ان لوگوں کو مشتعل کردیا ہے جو قوم پرستی کا کاروبار کرتے ہیں یا وہ جو تاریخ کے مقبول سیاسی بیانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

Fall of Dhaka

Fall of Dhaka

یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے معافی کے مطالبے پر کسی پاکستانی معروف یا غیر معروف شخصیت کے بجائے انہی کے ملک کی معروف شخصیت کی کتاب کے حوالے جات اور مجموعی طور پر پوری کتاب ایک تاریخ ہے جس کے لئے انھوں نے کافی عرصہ محنت کی اور اس واقعے سے جڑے ، بنگالی ، پاکستانی ، بھارتی متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں ، اس کے علاوہ بھارتی لیفٹینٹ جنرل اروڑہ نے تیس لاکھ افراد کے دعوی کو ناممکن قرار دیا تھا ۔ بنگلہ دیش دعوی کرتا ہے کہ نو ماہ کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا ۔ لیکن اگر حقیقت پسندانہ نظر اس سے بھی لمبی اور تلخ لڑائیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ویت نام کی بارہ سالہ جنگ میں دس لاکھ ہلاکتیں ہوئیں یعنی سالانہ 83ہزار بنتی ہے ۔الجیریا کی ساڑھے سات سالہ جنگ میں ایک لاکھ ، کمبوڈیا کی 23سالہ جنگ میں گیارہ لاکھ ، افغانستان کی کی چودہ سالہ جنگ میں بیس لاکھ ، بوسینا میں مسلمانوں کا تین سال قتل عام کیا گیا اس میں ایک لاکھ 42ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ویت نام میں امریکہ کی جانب سے اٹیم بم کے علاوہ قریب قریب تمام مہلک ہتھیار استعمال کرڈالے ، لیکن بارہ سال میں ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب تھی۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور وجوہات معلوم کرنے کیلئے تحقیقاتی کمیشن بھی بیٹھے ، لیکن اب سب بے سود ہے کیونکہ بنگلہ دیش ایک حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔ 71کی جنگ کے بعد جگر خراش المیہ پر شادیانے بجاتے ہوئے بنگلہ دیش کے اس وقت کے قائم مقام صدر نذر اسلام نے اعلان کیا تھاکہ ۔۔ “ہماری یہ فتح نہ کسی فوج کی فتح ہے ، نہ کسی ملک کی ، یہ فتح ہے حق کی باطل پر ۔ یہ فتح ہے ، ایک صحیح نظریہ کی غلط نظریہ پر ، تقسیم ہند سے پہلے سر پھرے مسلمانوں نے یہ دعوی کیا کہ قومیت کا مدار مذہب کا شتراک ہے ، وطن کا اشتراک نہیں اور حکومت کی بنیاد مذہب پر ہے ، سیکولر نہیں ، وہاں ان لوگوں کو لاکھ سمجھایا کہ یہ نظریہ غلط ہے اور ناممکن العمل ، اس پر اصرار نہ کرو ، لیکن وہ نہ مانے اور غلط مفروضہ کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم بن کر ایک الگ مملکت کے بانی بن گئے ، لیکن چوبیس سالہ تجربے نے ثابت کردیا کہ جو نظریہ یہ لوگ پیش کر رہے تھے وہ باطل تھا اور حق وہی تھا جو ان کے مخالفین پیش کررہے تھے۔سقوط ڈھاکہ نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ، اب یہ شہادت تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے منقوش رہے گی۔

ہم ان راہ گم کردی لوگوں سے اب بھی کہیں گے کہ وہ اس باطل نظریہ کو ترک کرکے وطن کی اشتراک کی بنا ء پر پھر سے ہندوستانی قوم کا جذو بن جائیں اور مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں ورنہ جو حشر مشرقی پاکستان کا ہوا ہے ، وہی کل مغربی پاکستان کا بھی ہوگا ، حقائق کسی کے جھٹلانے سے جھوٹے ثابت نہیں ہوجایا کرتے ۔”ادھر نذر اسلام یہ کہہ رہے تھے اور دوسری طرف بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنی پارلیمان میں”فتح بنگالہ”پر خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ “یہ کامیابی نہ ہماری فوجوں کی کامیابی ہے اور نہ ہی حکومت کی کامیابی ، یہ کامیابی ہے ، حق پر مبنی نظریہ کی ، اس نظریہ کے خلاف جو باطل پر مبنی تھا ، مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد پر ایک باطل نظریہ رکھی تھی ۔ ہم انھیں بار بار سمجھاتے رہے کہ ان کا نظریہ غلط ہے ، یہ کامیاب نہیں ہوسکتا ، انھوں نے نہیں مانا اور اپنی ضد پر قائم رہے۔

اب ٢٥ سال کے تجربہ نے بتا دیا کہ جو کچھ ہم کہتے تھے ، وہ حق تھا اور ان کا نظریہ باطل ، یہ ان کے باطل نظریہ کی شکست ہے “۔تقسیم کے اس مرحلے پر بنگلہ دیش بننے کی تمام وجوہات کو زیر بحث لانا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنانے والوں کی سوچ کیا تھی ؟ ۔ اور کیوں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سزائیں دیں جا رہی ہیں۔پاکستان کے قیام دو قومی نظرئیے کے تحت عمل میں لایا گیا لیکن بعد ازاں لسانی معاملے کا جواز بنا کر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی عوام میں نفرتیں اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔جماعت اسلامی نے پاک ، بھارت جنگ کے دوران جو بھی ، جیسا بھی کردار ادا کیا وہ پاکستان کو بچانے کیلئے تھا ، اسی ضمن میں بھارت نے جو پاکستان کو دو لخت کرنے کیلئے جو کردار ادا کیا وہ قابل مذمت تھا اور رہے گا ، کیونکہ بھارت اب دوبارہ اُسی ہی صورتحال سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیدا کر رہا ہے ، صوبائیت ، لسانیت اور قوم پرستی کی اس سیاسی تناظر میں بھارتی ہاتھ کو قطعی دور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنمائوں اور کارکنان کو پاکستان کے نام سزائیں دیں جا رہی ہیں اس سلسلے میں پاکستان کو باقاعدہ اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ جنگی جرائم کا یہ معاملہ بین الاقوامی نہیں متنازعہ جنگی ٹریبونل کے تحت ہو رہا ہے۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان افغان