سلگتا کشمیر

برسوں گزر گئے
تجھے زنجیر ہوئے
آذادی کے خواب نہ
شرمندہ تعبیر ہوئے
دھواں اٹھتا ہے
بارود کا چہار طرف

عرصہ گزرا تجھے
جنت نظیر ہوئے
تیرے حسن کی جو
کرتے تھے مداح سرائی
تیری بربادی پر اب
حیرت کی تصویر ہوئے

تیرے درد کا درماں
نہ کبھی ہوسکا
شاہوں کے دعوے
یوں تو کثیر ہوئے
تجھ پر مسلط خون

کے پیاسے ہوئے
ظلمتوں کے دن رات
تیری تقدیر ہوئے
اشک خوب بہاتے ہیں
تیرے غم کا مگر

عمل سے آج ہم لوگ
ہیں بے ضمیر ہوئے
تو اب راکھ ہے آگ ہے
دھواں ہے فقط
تجھ پر کتنے مظالم
میرے کشمیر ہوئے

Kashmir Solidarity

Kashmir Solidarity

شاعرہ : فرح بھٹو