فرخ شہباز وڑائچ سے ایک مختصر ملاقات

Farrukh Shahbaz

Farrukh Shahbaz

تحریر: ایم آر ملک
نوجوان دانشور، ادیب، محقق، لکھاری فرخ شہباز وڑائچ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں جب ہم لکھنے والوں کے مسائل کا ادراک کرتے کسی کو دیکھتے ہیں تو فرخ شہباز ہمیں اگلی صف میں نظر آتے ہیں فرخ شہباز نے 2011 میں کالم نگاروں کی یونین پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ (PFUC) اپنے ساتھیوںکے ساتھ بنا کر ایک تاریخی قدم اُٹھایا جس نے اس صنف کے قد آور لکھاریوں کو یہ باور کرایا کہ اُن کا وجود بھی معاشرے میں ایک کریم کا مقام رکھتا ہے۔

زندہ دلوں کے شہر میں فیروز پور روڈ کے ایک گھر میں جنم لینے والے اس نوجوان کے لامحدود حدوں کو چھونے والے ٹیلینٹ کا اظہار کہاں سے کیا جائے کہ جب ہم بچوں کے ادبی مقام کا تعین کرتے ہیں تو فرخ شہباز اُن اونچائیوں پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں میرے جیسے کم مایہ انسان دیکھنے کی جسارت کریں تو سر پر رکھی جھوٹی انا کی پگ گرتی دکھائی دیتی ہے کئی روز قبل وہ میرے شہر میں آئے تو اُن سے بہت سی باتیں ہوئیں لگا جیسے وہ برسوں کے شناسا ہیں۔

ایک نشست میں جو مختصر تھی وہ بہت کچھ کہہ گئے اُن کی ذات کے کئی دریچے کھلے حصول ِتعلیم کے حوالے سے ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جرنلزم میں گریجوایشن کے بعد انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری کی جب اُن سے انتہائی اہم سوال یہ کیا گیا کہ کالم نگاروں کی تنظیم بنانے کے مقاصد کیا تھے ؟ تو کہنے لگے کہ اک عرصہ سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ کالم نگاروں کیلئے بھی کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں اُن کے جائز حقوق اُنہیں مہیا ہوں اس لئے اک مدت کی ریاضت کے بعد قدرت نے یہ حوصلہ بخشا کہ کالم نگاروں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جاسکے علاوہ ازیں نوجوان کالم نگاروں کی رہنمائی مد نظر تھی جس کی شدید کمی کو دیکھتے ہوئے ہم الحمد للہ اپنی اہم اور تاریخی کاوش میں کامران ہو پائے فرخ جو بچوں کے مایہ ناز ادیب ہیں۔

اس وقت ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہورجو بچوں کے ادب کے فروغ کیلئے پیش پیش ہے میں بطور ایڈیٹراپنی ذمہ داریاں جبکہ ماہنامہ ارقم میں بھی ایڈیٹر کے ہی فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ سہ ماہی ذوق انٹر نیشنل جو ایک ادبی رسالہ ہے میں مدیر منتظم ہیں پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے بلامقابلہ اپنی خدمات کے صلہ میں بارہا جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے ایک سوال فرخ سہیل سے یہ بھی ہوا کہ کوئی قابل فخر کارنامہ جو آپ سمجھتے ہیں تو بولے بڑی شخصیات جن کے چرنوں میں بیٹھنا انسان قابل فخر سمجھتا ہے کے انٹرویو میرے لئے مقصد حیات ہیں اور ان انٹرویوز کا مجموعہ مارکیٹ میں مرتب ہوکر کتابی شکل میں آرہا ہے جن میں جناب سجاد میر ،سہیل وڑائچ ،وصی شاہ ،مجیب الرحمان شامی ،اوریا مقبول جان ،عباس تابش، اختر عباس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ قدسیہ بانو جو ایک معتبر نام ہے بچوں کی طرح اپنی محبت نچھاور کرتی ہیں اور میں اُن کی محبت کے بغیر اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتا ہوں۔

Farrukh with Bano Qudsia

Farrukh with Bano Qudsia

اپنی ویب سائٹ اردو نگر کا نہ صرف ایڈیٹر ہوں بلکہ ایجوکیٹر ایدوائزری بورڈ کا ممبر بھی ہوں جب ان سے وطن عزیز کے موجودہ حالات کے حوالے سے سوال کیا گیا اور پوچھا گیا کہ وہ وطن عزیز کے مستقبل کو کس نہج پر دیکھ رہے ہیں تو اُن کا موقف بڑا واضح تھا دھرتی ماں کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے یہ ایک دو روز میں پیدا نہیں ہوئے ان حالات میں اُن ہاتھوں کا دوش ہے جنہوں نے اس کے جسم کو نوچا اپنی کرپشن کا پیٹ بھرنے کیلئے اسے ماں نہ سمجھا سیاست کے میدان میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ کسی بھی درد مند پاکستانی کے دل کو خون خون کرنے کیلئے کافی ہے نصف صدی سے زائد کا عرصہ آزاد ہوئے گزر چکا لیکن ہمیں آج تک آزادی کی ابجد بھی ازبر نہ ہو سکی تاہم خدا کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے اور ایک صالح قیادت اگر ہمیں میسر آتی ہے تو قوم کی پھولی ہوئی سانس ٹھکانے آسکتی ہے اس وقت ہمیں صاف شفاف الیکشن سسٹم کی ضرورت ہے ایماندار بیورو کریسی ہماری ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب صداقت سے بھر پور قیادت میسر آئے۔

موجودہ پاکستانی میڈیا اور صحافتپر اُن کا جواب بڑا نپا تُلا تھا کہ صحافت میں الیکٹرانک میڈیا کی بدولت ایک بھونچال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ریٹنگ کے چکر میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے آپ سکرین کی طرف نظر دوڑائیں ٹاک شوز ،ڈرامے ،پروگرام اخلاقیات سے یکسر عاری نظر آتے ہیں ہمیں از خود میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرنا ہوگا تاہم پرنٹ میڈیا کی افادیت میں کمی کا جو تصور الیکٹرانک میڈیا کی بنا پر تھا وہ دم توڑ چکا ہے آخر میں اُنہوں نے کہا کہ تابش میرے قلمی اُستاد ہیں اور اُن کا کہنا بھیسچ لگا کہ عباس تابش کی ہر غزل میں زندہ شعر ملتا ہے عباس تابش کا ماں جیسی عظیم ہستی پر لکھا گیا ایک شعر کئی شعراء کی کلیات پر بھاری ہے گل نوخیز اختر کے ذکر پر اُنہوں نے کہا کہ وہ انتہائی قابل لکھاری ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک