فرخ شہباز وڑائچ کی البیلی کاوش

Write Column

Write Column

تحریر : عبد الستار اعوان
کتاب کوئی بھی ہو، کسی بھی موضوع پر لکھی گئی ہو بہترین دوست کا درجہ رکھتی ہے ‘اس خیال سے بھی خود کو خوش بخت تصور کرتاہوں کہ ہوش سنبھالتے ہی کتاب سے دوستی نصیب ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے محبت اور چاہ کا رشتہ مضبو ط سے مضبوط تر ہو تا جا رہا ہے ‘پھر لکھنے والے حضرات بھی اس قدر محبت کرتے ہیں کہ جونہی ان کی کوئی نئی کتاب منصہ شہود پر آتی ہے تو اس طالبعلم کو ضرور یاد کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ روز گزرتے ہیں کہ محترم کرنل خالد مصطفی اور ثناء اللہ سعدکی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی نئی کتاب کی تلاش میں تھے ‘اور کتاب میسر نہ آنے کی صورت میں اس قدر بوریت محسوس کر رہے تھے کہ ایک ایک لمحہ بھاری لگ رہا تھا کہ اداسی کے انہی لمحوں میں ایک کتاب بذریعہ ڈاک موصول ہوئی۔جس وقت ٹائٹل پر نظر پڑی تو خوشی کی انتہانہ رہی کہ برادرم فرخ شہباز وڑائچ کی عمدہ کاوش”کالم پوائنٹ ” جگمگ جگمگ کررہی تھی’ اس سمے مجھے والٹیئر کا بہت ہی بامعنی اور پرُاَزحقیقت جملہ یاد آیا کہ : ”جس قوم کے نوجوانوںمیں علمی ذوق اور تجسس پہلی ترجیح بن جائے اسے اپنے مستقبل کے متعلق ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے”۔

آج جبکہ و طن عزیز میں دہشت گردی، مغربی تہذیبی یلغار اور سماج دشمن عناصر نے پورے ماحول کو سراسیمہ کر رکھا ہے ، ہمارے معاشرے کا نوجوان اخلاقی بے راہ روی میں گھر چکا ہے اور قلم و کتاب کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ‘ ایسے میں ان چند نوجوان اہل علم اور اہل قلم کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں جواس شکستہ اور مایوس کن فضاء میں بھی امید کا دیا جلائے ہوئے ہیں اور ماحول کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدا ن عمل میں اتر کر اپنی تمام تر توانائیاںصحیح سمت صرف کر نے میں مگن ہیں ۔ بھلے کوئی تسلیم نہ کرے لیکن حقیقت میں ان اہل قلم کی محنتوں کے مثبت اثرات بہرحال معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں ۔فرخ شہباز مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نوجوان لکھنے والوں کی تحریروں کو یکجا کر کے ایک کتاب میں سمو دیا ہے ۔ ”کالم پوائنٹ” میں لکھاریوں کی سد ابہار تحریروں کو ترتیب دیا گیا ہے اور تقریبا ً سبھی لکھنے والوں کے مختصر کوائف بھی جمع کر دیئے گئے ہیں ۔فرخ شہباز کی یہ تازہ تالیف جب سے موصول ہوئی ہے تب سے ان کے لئے ‘ان کی قلمی جدو جہد کے لئے زبان سے نہیں دل سے دعائیں نکل رہی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ اخباری مضامین اور کالموں کی عمر محض ایک دن ہوتی ہے اور مضمون کتنا ہی پر مغز ، جاندار اور عمدہ کیوں نہ ہو سورج ڈھلتے ہی اس کی عمر تمام ہو جاتی ہے باوجود اس کے کہ اخبارات میں شائع ہونے والے کئی مضامین اور کالم ریکارڈ میں رکھنے کے قابل ہوتے ہیں اوروہ مستقل طور پر استفادہ کا کام دیتے ہیں ‘مگر اس نفسا نفسی کے دورمیں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ان کالموں کو فائلوں میں محفوظ کرتاپھرے ‘ایسے میں کالم نویسوں کی تحریروں کو یکجا کر دینا یقیناعلم دوستوں پر بہت بڑا احسان ہے۔

Book

Book

قارئین ! ضروری خیال کرتا ہوں کہ آپ بھی اس کتاب کی ایک جھلک ملاحظہ فر مائیں۔مولف کے مطابق: ”نوجوانوں کے سامنے دو راستے تھے ایک نہایت آسان دوسرا نہایت کٹھن ، ایک تخریب کاری کا اور دوسرا تعمیر کا ۔ ان نوجوانوں نے مایوسی ، افلاس، دہشت گردی ، بد امنی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اپنا راستہ تلاش کیا اور شر کی بجائے خیر کی آواز اس امید پر بلند کی ہے کہ ان کی آواز اور آپ کا ساتھ مل کر اس معاشرے کی سمت بد ل کر رکھ دیں گے ”۔ ”یہ صرف کتاب ہی نہیں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے ، سوچنے والے انسانوںکا اظہار ہے ، ہو سکتا ہے آپ کو کسی کا اظہار ، نظریہ یا سوچ اچھی نہ لگے لیکن سچ پوچھئے تو یہی اس کتاب کی خوبصورتی ہے ۔ یہ کتاب ان نوجوانوں کا تعارف ہے جو ہماراخوبصورت کل ہیں ، میری خوش بختی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں آنے والے کل اور گزرے ہوئے کل کے درمیان ایک اہم کر دارا دا کرنے جا رہا ہوں ” ۔ کتاب کاانتساب ان خوبصورت الفاظ میں کیا گیا ہے کہ:”ان قلم کاروں کے نام جنہوں نے ہر دور میں اپنے قلم سے کلمہ حق لکھا”۔

فرخ شہباز صحافتی، علمی اور ا دبی حلقوں میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اوربلاشبہ ان کے کام، جدو جہد اور سعی کو بھرپور انداز سے سراہا جا رہا ہے ۔ قلم کاروںکی مختلف جرائد میں شائع ہونے والی تحریروں کو مجموعے کی صورت منصہ شہود پر لانا فرخ شہباز کی ”البیلی”کاو ش قرار دیاجا سکتا ہے ۔تمام کالم قرینے اورسلیقے کے ساتھ ترتیب دیئے کئے گئے ہیں ۔ ان رشحاتِ فکر کو اس خوبصورتی کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے گویا رنگا رنگ اور جگمگاتے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہو، مولف کی جانفشانی اور محنت سے ترتیب دی گئی اس کاوش میں نایاب موتی پنہاں ہیں۔ شہزاد چوہدری، حافظ ذوہیب طیب، قاسم علی ، حکیم محمد شفیق کھوکھر، رقیہ غزل ، ایس یو سمیع ‘غرض پچاس کے قریب قلم کاروں کی تحریروں کوکتاب کی زینت بنایا گیا ہے’ ان تمام لکھنے والوں کے رشحاتِ قلم پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صفحہ بہ صفحہ فکر و خیال کے نئے پرت کھلتے چلے جاتے ہیں اور نئے زاویوں سے آگاہی بھی ہوتی ہے۔

پروفیسر رشید انگوی ،پروفیسر رفعت مظہر کے نثر پاروں نے کتاب کے حسن کو دو آتشہ کردیا ہے۔ ایک دوست کتاب دیکھ کر کہنے لگے اس میں تو بعض ”سفید ریش”نوجوانوں کے کالم بھی شامل کئے گئے ہیں ‘عرض کیا دراصل مولف نے اس لئے ان بزرگوں کے کالم شامل کئے ہیں تاکہ ان حضرات کی برکت سے قوم کے یہ نوجوان لکھاری’ یہ روشن ستارے” نظرِ بد”سے محفوظ رہیں ۔ کتاب جس جذبے سے ترتیب دی گئی اس کا مطالعہ بھی اسی جذبے اور متانت کا متقاضی ہے۔منور پبلشر نے ”کالم پوائنٹ” شائع کر کے بلاشبہ علم و اد ب کی مفید خدمت انجام دی ہے ‘قوی امید ہے کہ باذوق اہل علم اس کتاب کو قدر اور تحسین کی نظر سے دیکھیں گے’ یہ کتاب ایسے طلبہ و طالبات کے لئے بھی راہنمائی کا کام دے سکتی ہے جو تخلیق و تدقیق میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ فرخ شہباز وڑائچ اور ان تمام لکھنے والوں کے لئے دل سے دعا ہے کہ ”اللہ کرے حسن ِ رقم اور زیادہ”۔ آمین۔

Pakistan Federation Union of Columnist

Pakistan Federation Union of Columnist

تحریر : عبد الستار اعوان