آنکھ ایک نعمت عظیم‎

Allah

Allah

تحریر: نعیم الر حمن
اللّه تعالی نے انسان کو اتنے انعامات سے نوازا هے کہ انھیں شمار میں بھی نہیں لایا جا سکتا ۔ اللّه تعالی فرماتے ھیں :-

“ان تعد و ا نعمته اللّه لا تحصو ھا ”
” کہ اگر تم اللّه کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے ”
چه جائے کہ یہ کمزور انسان ان نعمتوں کا شمار کر سکے ۔ یہی وجہ هے کہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص یوم پیدائش سے لے کر مرنے کے وقت تک تمام لمحات اللّه تعالی کی فرما برداری اور اس کی رضا جوئی میں گزار دے تو وه اسے بھی قیامت کے دن حقیر سمجھے گا کہ مجھ سے اللّه کی عبادت اور اس کی حمد و ثنا کا حق ادا نہ ہو سکا ۔۔ ( احمد ، طبرانی ) انہیں بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت آنکھ هے ۔ جس کے بارے میں فرمایا :- ”

“الم نجعل لہ عینین • و لسانا و شفتین ”
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں ، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنایے ؟ ( البلد 8،9)
آنکھ کی اس نعمت کا اندازہ آپ اس حدیث سے بھی کر سکتے ھیں جسے امام حاکم نے حضرت جابر رض سے روایت کیا هے جس کا خلاصه یہ هے : ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم کے پاس تشریف لاے اور فرمایا کہ اللّه تعالی کا ایک بندا ایسا تھا جو پہاڑ پر پانچ سو سال تک عبادت کرتا رہا ۔ اس کے اردگرد دریا تھا ۔ پہاڑ پر پانی پینے کے لئے اللّه تعالی نے اس کے لئے ایک چشمہ جاری کر دیا اور ایک انار کا درخت اگا دیا ، وه انار کھاتا اور میٹھا پانی پیتا اور ہمہ وقت اللّه کی عبادت میں مصروف رہتا ۔ فوت ہوتے هوئے اس نے التجا کی ، الہی حالت سجدہ میں میری روح قبض کی جائے ۔ میرے جسم کو صحیح سالم رکھا جائے تا کہ قیامت کہ دن میں سجدہ کی حالت میں اٹھایا جاؤں ۔

blessings

blessings

چنانچه اس سے اللّه تعالی نے وہی معامله کیا ۔ مگر ہمیں اس کے بارے میں معلوم ہوا هے کہ قیامت کے روز جب اسے اللّه کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو اللّه تعالی اس کے بارے فرمائیں گے کہ میرے بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ مگر وه کہے گا نہیں بلکہ میرے عمل کے بدلے مجھے جنت میں داخل کیا جائے ۔ اللّه فرمائیں گے کہ میرے بندے کے عمال اور میری نعمتیں جو میں نے اسے دی تھیں ان کے مابین موازنہ کیا جائے چناں چه ایک آنکھ کی نعمت کا جب اسکے پانچ سو سالہ عمال کے مقابلے میں وزن کیا جائے گا تو آنکھ کی نعمت کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور باقی نعمتیں اس پر مستزاد ہوں گی ۔ اللّه تعالی فرمائیں گے اسے اب جہنم میں پھینک دو پھر وه عرض کرے گا الہی مجھے اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے ۔ اللّه تعالی فرمائیں گے اسے واپس لے آو ۔ اللّه فرمائیں گے میرے بندے بتلا تجهے عدم سے وجود کس نے دیا ؟ عرض کرے گا اے اللّه آپ نے ۔ اللّه تعالی فرمائیں گے تجھے پانچ سو سال تک عبادت کرنے کی قوت کس نے بخشی ؟ اس طرح تیرے کھانے کے لئے انار کا درخت کس نے اگایا ؟ اور پینے کے لئے پانی کا چشمہ کس نے جاری کیا ؟ عرض کرے گا اے اللّه آپ نے ۔ اللّه تعالی فرمائیں گے یہ سب میری رحمت سے ہوا ۔ میری رحمت سے ہی میرے بندے کو جنت میں داخل کردو ۔

( المستدرک للحاکم ، والتر گیب ص : 399، 401 ج : 4 ) اس سے آپ اندازہ کر سکتے ھیں کے آنکھ کتنی بڑی نعمت هے ۔ اوپر درج کی حدیث میں اللّه کی رحمت کا ذکر ہوا هے ۔ اللّه نے ہم پر ایک اور رحمت کی هے جو کہ رمضان هے ۔ یہ نیکی کی فصل بہار هے ۔ مومنو کا من پسند مہینہ هے ۔ اس کے بارے میں ایک شاعر یوں کہتا هے :

~ ماہ صیام کیا هے رحمت کا اک خزانہ
قدرت نے کر دیا هے بخشش کا اک بہانا

ہمیں اس نعمت کی بھی قدر کرنی چاہیے اور جبریل امین کی بد دعا سے بھی بچنا چاہئے ۔ بد دعا کونسی هے وه تو آپ جانتے ہی ہوں گے کیا کہا ؟ دوبارہ بتا دوں ۔ چلیں سنیں ۔ جبریل امین نے دعا کی لعنت ( ہلاک) ہو وه شخص جس کی زندگی میں رمضان آے اور وه اس میں عبادت کر کے اپنے آپ کو جہنم سے آزاد نا کروا لے ۔ نبی اکرم صلی اللّه علیہ وسلم نے کہا آمین ۔

اب بات کرتے ھیں ہم آنکھ کی حفاظت کے حوالے سے کہ آنکھ کی اس عظیم نعمت کا تقاضا یہ هے کہ اس کی حفاظت کی جائے اور اسے ضایع ہونے سے بچایا جائے ۔ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم نے آنکھوں میں سرما لگانے کی تاکید فرمائی هے اور خود بھی روزانہ سوتے وقت ہر آنکھ میں تین تین سلائیاں سرمے کی ڈالتے تھے ۔ سیاه سرمہ ہر دور میں نظر کی تقویت اور آنکھ سے ردی مواد کے اخراج کا سبب سمجھا گیا هے ۔ اس سلسلے میں آںحضرت صلی اللّه علیہ وسلم نے ” اثمد ” کی بڑی تعریف کی هے فرمایا یہ آنکھوں کو جلا بخشتا هے اور پلکوں کو اگاتا هے ۔۔ ( ابو داؤد ، ترمزی )

رمضان کا مہینہ پھر سایه فگن هے ۔ آیے اس آنکھ جیسی نعمت سے فائدہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھیں ۔ بچپن سے لکھنے کا شوق رہا ہے ۔ اسی لئے 11 سال کی عمر میں لکھنا سٹارٹ کیا ۔ 4سال سے اردو آرٹیکل لکھتا ہوں ۔ دینی موضوعات پر لکھنا میرا پسندیدہ کام ہے ۔ میں 14 دسمبر 2000 کو قصور کے ایک علاقے میں پیدا ہوا ۔ انٹرنیٹ پر چند ایک کالم پبلش ہوے ہیں ۔ رسالا اسلامک پریس جو ایک مقامی پمفلٹ تھا اس میں میرے کالم پبلش ہوتے رہے ہیں ۔

تحریر: نعیم الر حمن