فاٹا کے حقوق کون دے گا

FATA

FATA

تحریر : نجم الثاقب
افغانستان میں روس کے حملے کے بعد جہاں افغان عوام نے جانی اور مالی نقصانات کا بے انتہا خمیادہ بھگتا وہاں پاکستان کے صوبے خیبر پختواہ اورپوری قبائلی پٹی فاٹا میں بسے والوں کے لئے یہ گھڑی تکلیف، کرب اور پریشانی سے کم نہ تھی۔ افغان جنگ ختم ہونے کے بعد کئی دہائیوں سےدونوں اطراف افغانستان اورپاکستان کے سرحدی حدود کے ساتھ منسلک ایریز مسلح جنگجو گروپ اور دینی انتہاپسند گروہوں کے قبضے میں رہے ،جہاں انھوں نے اپنے ٹرینگ کیمپ اورآماج گاہیں بنا رکھی تھیں ۔ عالم اقوام کی نظر میں پاکستان اور افغانستان کے یہ قبائلی علاقے دہشت ، خوف اور جرائم کا گھر سمجھے جاتے، کئی عرصہ تک پوری دنیا سے جنگجو ، دہشت گرد، ٹارگٹ کلرزاور کرائمنلز یہاں آ کر مقیم رہتے ۔ یہاں سے یہ منظم انداز میں خود کش حملوں، بم دھماکوں، دہشت گردی کی امداد و ترسیل ، اغواء برائے تعاون اور دیگر جرائم کی منصوبہ بندی ، تبخیر کاری اور پلاننگ کو عملی جامع پہناتے ۔ ماہرین پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا مرکز افغانستان اور پاکستان سے منسلک ان قبائلی علاقہ جات کو قرار دیتے رہے ہیں۔

پاکستانی سیکورٹی فورسزاور افواج نےفوجی آپریشنز شروع کیا ،جس میں پاک افواج، قانون نافذ کرنے والوں ادارے ، پولیس اور عوام نے قمیتی جانوں کے نذرانے پیش کئے جس کے نتیجے میں تمام قبائلی علاقا جات کو دہشت گردوں سےخالی کرایا گیا ۔ اس فوجی آپریشن کے دوران کئی دہشت گرد مارے گئے اوران کی بڑی تعداد سرحد پار کرکے افغان میں روپوش ہو گئے۔قبائلی علاقاجات میں ہونے والے آپریشن کے دوران وہاں کے رہنے والےلاکھوں قبائل کو اپنے گھر بار، مال ومویشی، زر وزمین چھوڑ کر بے سرو سامان کی حالت میں ہجرت کر نا پڑی اس دوران کے پی کے حکومت کو دیگر مسائل کے ساتھ قبائلیوں کی آبادی جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ فوجی آپریشن ختم ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے ان قبائل کو قومی دہارنے میں لانے کے لئے دوبار ہ آباد کاری کا عمل شروع کیا اور فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ وفاقی حکومت کو چاہئے تھا قبائلیوں کی آبادی کاری کے عمل کے ساتھ ہی سیاسی مصلحت سے بالا تر ہو کر مشاورت سے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی منظوری دیتے ، جس سے قبائلی عوام کو تمام حقوق کے ساتھ مراعات و سہولیات میسر ہوتیں اور دہشت گردوں کو دوبارہ پنپنے کا موقع نہ ملتا۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اس پر متفق نظر آتیں ہیں کہ فاٹا اور قبائلی علاقاجات کے اندر عوام کو ضروریات زندگی (روزگار، صحت، تعلیم اور دیگر دوسری سہولیات ) کی فراہم کو یقینی بنا جائے تاکہ وہاں کے عوام ملک کے باشعور شہری کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے ملک میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کر سکیں، جس کے بعد ہی پاکستان عالمی طاقتوں کے دباو کا گھل کر مقابلہ کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت کے پی کے میں جہاں دہشت گردی ، انتہاء پسندی اور جرائم کی فضا قائم ہے وہاں فاٹا کے عوام کا اضافی بوجھ بھی کے پی کے حکومت کے کندھوں پر ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق تقریبا 75 فیصد سے زیادہ قبائلی پشاور میں مقیم ہیں جبکہ 25 فیصد فاٹا میں مقیم ہیں۔

فاٹا (قبائلی علاقہ جات) کا وسیع ترین ایریا ہے جو افغانستا ن کی سرحدی لمبائی 2380 کلومیٹر کے ساتھ منسلک ہے۔ اس علاقے میں دشوار گزار اور کٹھن پہاڑی سلسلہ ہونے کے باعث رابطہ سڑکوں کا نظام خستہ حالی کا شکار ہے۔ فاٹا کا ایریا باجوڑ ایجنسی سےشروع ہو کر جنوبی وزیرستان تک پھیلا ہوا ہے۔ فاٹا کی سات ایجنسیاں: باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ فیرنٹیئر ریجن: (پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان پر مشتمل ہے، فاٹا کی تمام ایجنسیوں کے راستے فیرنٹیئر ریجن سے نکلتے ہیں جب کہ ان فیرنٹیئر ریجن پر ڈی ۔سی۔اوز تعنات ہیں ۔ باجوڑ ایجنسی کا راستہ (ٹرمیگرہ) ضلع دیر سے نکلتا ہے، چار سدد میں (گلا نائی) کے مقام سے مہمند ایجنسی کی رابطہ سٹرک ہے، خیبر ایجنسی کا راستہ پشاور (جمردو) سے نکلتا ہے ۔ اورکزئی اور کرم ایجنسی کا راستہ ہنگو سے ہے، شمالی وزیرستان کا راستہ بنوں سے جبکہ جنوبی وزیرستان کا راستہ ضلع ٹانک سے جاتا ہے ۔ فاٹا کے ان قبائلی علاقا جات ( ایجنسیز) کا ایک دوسرے سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے آپس میں سماجی ،معاشرتی اور معاشی تعلقات نہیں ہیں۔ تمام ایجنسیز کےرہنے متعلقہ اضلاع سے گہرے مراسم اور روابط رکھتے ہیں ۔ فاٹا کا روز مرہ کے معمولات اور مسائل کے حل کے لئے چیف ایگزیکٹو(گورنر) اور پولیٹکل ایجنٹ پشاور میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دہے رہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے فاٹا و قبائلی نمائندگان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان سے مشاورت کے بعد فاٹا کو کے پی کے کا حصہ ضم کرنے کا عندیہ دیا۔ وفاقی حکومت جماعت کے دو اتحادی ارکان مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے بعد میں سیاسی مخالفت کے بناء پر اعتراضات اور بیانات دینے شروع کر دئیے جس کے باعث وفاقی حکومت نے اپنے قدم سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس بل کو فورا پیش کرے تاکہ فاٹا اور قبائلی عوام کو تمام بنیادی ضروریات اور حقوق کا مل جس کے بعد ہی دہشت گردی جیسے ناسور کا خاتمہ ممکن ہے۔

Najam Saqib

Najam Saqib

تحریر : نجم الثاقب