جو تن لاگے سو تن جانے

Iftar Party

Iftar Party

تحریر: وقار انسا
ماجد صاحب کے ہاں افطار پارٹی تھی اور شام سے ہی خاندان کے لوگوں کے ساتھ چند قریبی دوستوں کی فیملیز بھی موجود تھیں – ور مردوں کا دلچسپ موضوع سخن سیاست اور ملکی حالات زور وشور سے جاری و ساری تھا خواتین میں سے کچھ انہیں سن رہی تھیں اور کچھ بیزار ہو کر اپنی باتوں میں مشغول تھیں- چھوٹے بچوں کا غل غپاڑہ بھی جاری تھا – کوئی توپہلے ادوار کو اس سے بہتر قرار دے رہا تھا تو کوئی نام نہاد جمہوریت کو ملکی بہتری کےلئے لازم قرار دے رہا تھا اور کوئی ملک کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر آرمی کے بوٹوں کی چاپ سن رہاتھا ملک جس تیزی سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں انہوں نے تو دن کا سکون بھی غارت اور رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں ایک صاحب نے تشویش ظاہر کی ایسا تو پہلے ادوار میں بھی ہوتا رہا لیکن اتنا بھر پور احتجاج کبھی نہیں ہوا اب حکومت کیا کرے پہلی حکومتیں معیشت اور صنعت کو اتنا تباہ کر جاتی ہیں کہ حالات کے بحال ہونے میں وقت لگتا ہے ماجد صاحب حکومت کے حمائتی تھے

ترقیاتی کام بھی تو ساتھ ہو رہے ہیں لیکن اس طرف ھمارا دھیان نہیں جاتا ماجد صاحب کے بھائی باسط نے بھی اپنے بھائی کی بات کو بڑھایا ملک کا امن تباہ ہو رہا ہے سٹریٹ کرائم سے دہشت ہر وقت کی پھیلی رہتی ہے ملک ہر معاملے میں ناکام ہے نہ تو غریب کی جان محفوظ نہ روزگار ایک صاحب نے جل کر کہا ابھی کل ہی ھمارے پڑوسی کا بچہ بھی گولیوں کی نذر ہو گیا جو بیچارہ سکول سے واپس آرہا تھا تو بتائیں کیا آپ کے بچے محفوظ ہیں؟ ایک اور گویا ہوئے ڈکیتی کی وار دات میں کل میرے دوست کے گھر کا صفایا ہوگیا حکومت بری طرح ناکام ہے ہر ادارے کی کارکردگی صفر ہے
ان حالات میں بھی بازاروں کی رونقیں دیکھیں لوگ بازاروں میں شاپنگ کے لئے پھرتے ہیں اور ایسے میں تو وارداتیں ہوتی ہیں چلیں اب روزہ افطار کا وقت ہو رہا ہے لوگ بھی تو بچوں کا خیال نہیں رکھتے ماجد صاحب بولے ڈکیتی بھی کسی مخبری سے ہی ہوتی ہے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہے ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور مشکوک لوگوں کی نشاندہی کریں وقت بے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں روزہ افطار کرتے ہی کچھ لوگ کھا پی کر نکل گئے جو رہ گئے ان میں سے کسی کو نماز کا خیال آیا ان کی دیکھا دیکھی ایک دوکو اور بھی خیا ل آگیا ارے ماجد صاحب پانی نہیں آرہا باتھ روم سے آواز آئی مجھے تو پانی دے دیں واش روم جانا تھا دوسری آواز آئی ارے کل ہی تو کنٹینر منگوایا تھا خاتون خانہ بولیں دراصل پانی کا استعمال بھی تو ہوا ہے-

Water Bottle

Water Bottle

اب پانچ یا دس لیٹر کے منرل واٹر کی بوتل نکال لا ماجد صاجب جھنجھلا کر بولے ان لوگوں کو تو پانی دیں-اس صورتحال پر کچھ مہمان تمسخرانہ ہنسی ہنسے اور گھروں کو چل دئیے یک دم بجلی نے بھی چھٹی کر لی – بچوں کی چیخوں کے ساتھ ہی خاتون خانہ کی چیخ نے دل دہلا دئیے کیونکہ سیڑھیوں سے منرل واٹر سمیت اندھیرے میں توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے وہ اوپر سے نیچے آرہیں اوہو دیکھو بچت ہو گئی یا نہیں – وہ صاحب بولے کل فون پر خبر لیں گے چلو بیگم گھر جاکر نماز پڑھ لیں گے باہر اندھیرا ہے بہت ذرا دھیان سے اور میرا فون تھا ٹیبل پر اپنے فون کی لائٹ آن کرو میں اٹھا لوں وہ میں نے اٹھا لیا تھا – پرس میں رکھ دیا ہے اور اپنا فون بھی – میں اپنی چوڑیاں وغیرہ پرس میں رکھ لوں؟ ہاں ہاں نکلو جلدی بچے گھر میں اکیلے ہیں – جی چلیں بیڑہ غرق ہو اس حکومت کا رمضان میں بھی بجلی نہیں یہ ماجد صاحب تھے دیکھیں زیادہ تو نہیں لگی ماجد صاحب کی بہن بولیں –
ارے اندھیرے میں دیکھوں کیا ؟ ایمرجنسی لائٹ یا موم بتی لا خاتون خانہ کی چیخیں تھیں اللہ ستیاناس کرے ان کا کسی کی جان چلی جائے اس حکومت کو پرواہ نہیں! نند نے بد دعا دی
ارے سرسے لگتا ہے خون نکل رہا ہے بھابھی کا!! گاڑی نکالیں اور انہیں ہسپتال لے جائیں بہنوئی نے مشورہ دیا عظمی بھئی تم تو بچوں کو لو گھر چلیں ساری گلی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے
چلتے ہیں- دیکھیں تو بھابھی کو چوٹ لگی ہے پریشانی ہے عظمی نے خاوند سے کہا
ارے باسط تم اور بھابھی تو ادھر ہی ہو ناں میں گاڑی نکالوں ماجد صاحب بہنوئی کی بات سے دکھی ہو رہے تھے

گاڑی کو گھر کے گیٹ تک لائے ہی تھے کہ چیخنے چلانے کی آوازوں نے دل دہلا دیا اندھیرے کے باعث صحیح نظر نہیں آرہا تھا ان کا دل تیزی سے دھڑکا گاڑی سے نکلے تو دیکھا تھوڑی دور ان کے مہمان اور کچھ اور لوگ کھڑے تھے کیا ہوا ؟ پریشانی ان کے چہرے سے ہویدا تھی – ابھی گاڑی تک پہنچے ہی تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار پرس چھین کر لے گئے بیڑہ غرق ان لوگوں کا – کوئی تحفظ نہیں خاتون رو رہی تھیں کیا تھا پرس میں ؟ کچھ زیادہ نقصان تو نہیں ہو گیا ؟ میں نے اپنا اور ان کا موبائل بھی پرس میں ڈالا چوڑیاں اتاریں تو احتیاط کے لئے انگوٹھیاں اور جھمکے اور مالا بھی ساتھ ڈال دی تھی – خاتون رو رہی تھیں بھائی جان ذرا مدد کریں بھابھی کو گاڑی میں بٹھائیں- میرے دوست کا فون آیا ہے ان کے گھر کے باہر فائرنگ ہوئی ہے اور اس کے بیٹے کا کچھ پتا نہیں چل رہا -مجھے گھر جانا ہے کیسے حالات ہیں اس ملک کے اتنے سٹریٹ کرائم -باسط کی بیوی بولی –

Allah

Allah

اللہ اس حکومت کا بیڑہ تباہ کرے اتنی دہشت !!! ماجد صاحب بھاگے کہ بیوی کو گاڑی میں بٹھائیں لیکن گاڑی غائب – ان کے ہوش اڑ گئے میری گاڑی ! کہاں ہے بھائی گاڑی ؟ یہاں تھی -اب نہیں ہے
جلدی میں شور سن کر اترا ہوں اور چابی نہیں نکالی تھی کوئی لے کر چلا گیا اب کوئی ٹیکسی دیکھیں ہسپتال کے لئے سب صحیح کہتے ہیں اس حکومت کا تو اب ہر صورت خاتمہ ہونا چاہیے اللہ میرا سر چکرا رہا ہے بیگم کی نقاہت بھری آواز آئی-مجھے سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا
ارے صبر بیگم چلتے ہیں- کہاں سے ملے گی اس وقت ٹیکسی ؟ اور پھر ٹیکسی والے کا کیا بھروسہ؟
سچ ہی کہا ہے کسی نے جو تن لاگے سو تن جانے

تحریر: وقار انسا