مترو

اپنی تقریر میں اک بار کہا تھا مترو
میرے چیلوں نے تو تہوار منایا مترو

ہوتے ہوتے ہوئے یہ بول بہت ہی مقبول
بن گئے تکیہ کلامی یعنی تکیہ مترو

پہلے پہلے تو بہت خوب مزے لیتا تھا
مائک پر جب بھی مِرا قبضہ ہوا تھا مترو

لفظ آساں تھا سہل بھی تھا بہلتے تھے سبھی
سارے مجمع کو بہت خوب پٹایا مترو

میرے چیلے بھی بڑے گیان کے بھنڈاری ہیں
میں اسی گیان سے محفل کو پکارا مترو

پاس میرے تو کوئی لائحہ تھا، نا کوئی کام
بس چھلانگوں سے شب و روز گذارا مترو

یہ چھلانگیں مِرے چیلوں کو لبھاتی ہی رہیں
اور حریفوں کو بھی بے سوچ بھگایا مترو

میڈیا کو میں بنایا مِرے در کے کتے
بندروں سا میں رعایا کو نچایا مترو

ایسے ہی دھوم مچاتے ہوئے دنیا گھوما
چائے والے کو جہاں دید کرایا مترو

اپنی قسمت کا ستارا ذرا مدھم ہے ابھی
جانے کیوں روٹھا ہے قسمت کا ستارا مترو

رب نے ابلیس کو جنت سے بھگانے کے لیے
ایک ادنیٰ ہی صحیح بھول کرایا مترو

ٹھیک اسی طرح سے تذلیل کرانے کے لیے
نوٹ بندی کی بڑی بھول کرایا مترو

میں صحیح تھا کہ غلط مجھ کو خبر تھی ہی نہیں
آپ کے دم سے ہی کرسی کو میں پایا مترو

جملہ بازی مِرا فن ہے، مِری شہرت اس سے
کب کہاں میں کوئی وعدہ بھی نبھایا مترو

مجھ کو کب فکر ہے لوگوں کی کہاں ڈوب مریں
دیش بھکتی میں مِرا نام ہے اونچا مترو

میری ڈگری پہ بحث چھیڑ کے اروِند میاں
پوٹلی چھوٹ کی کس طرح کھلایا مترو

Ahmed Nisar

Ahmed Nisar

تحریر : احمد نثار
E-mail : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in