گولن کی حوالگی کا معاملہ باہمی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے: ترکی

Fethullah Gülen

Fethullah Gülen

ترکی (جیوڈیسک) ترکی 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے تواتر کے ساتھ امریکہ پر گولن کو حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ترکی نے منگل کو امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے پینسلوینیا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نا کیا تو اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ترکی فتح اللہ گولن پر گزشتہ ماہ ہونے والی ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔ تاہم گولن اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور وہ اس ناکام بغاوت کی مذمت بھی کر چکے ہیں۔

ترکی کے وزیر انصاف باقر بوزداگ نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ “اگر امریکہ (گولن) کو (ہمارے) حوالے نہیں کرتا تو انہیں ایک دہشت گرد کے لیے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی قربانی دینا ہو گی”۔

ترکی 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے تواتر کے ساتھ امریکہ پر گولن کو حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے گولن کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہا تھا کہ ترکی کی حکومت نے اس بغاوت میں ان کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں اور گولن کو ” ملک بدر نہیں کیا جا سکتا”۔

گولن کے وکلا کی ٹیم میں شامل ایک وکیل ریڈ وائن گارٹن نے مزید کہا کہ گزشتہ ماہ گولن کے حوالگی کی کوشش کے سلسلے میں ترکی کے تین وزارء جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا انہوں نے گولن کے خلاف سازش کے الزامات کے “پیچیدہ اور غیر منطقی” ہونے کے تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔

“ملک بدری بنیادی طور پر ایک قانونی عمل ہے۔ ہم وکیل ہیں اور ہمارا واسطہ شواہد اور قانونی طریقہ کار سے رہتا ہے۔۔ سوچیں وہ کیا ہے۔۔۔ ملک بدری کی کارروائی میں شواہد اہم ہوتے ہیں، قانوی عمل کی اہمیت ہوتی ہے”۔

واشنگٹن یہ کہہ چکا ہے کہ ملک بدری کی (قانونی) کارروائی شروع ہونے سے پہلے، ترکی کو گولن کے بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے کے بارے میں ٹھوس شواہد فراہم کرنے ہوں گے۔

بوزداگ نے پیر کو انٹرویو کے دوران کہا کہ اس ناکام بغاوت کے سلسلے میں چھبیس ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں ایک بڑی تعداد فوجی اہلکاروں، صحافی اور ماہر تعلیم کی ہے۔ انہوں نے کہا ان میں سے سولہ ہزار افراد کی گرفتاری باضابطہ طور پر عمل میں آئی ہے۔

گزشتہ ماہ کی ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں فوج عدلیہ، سول سوسائٹی اور تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تقریباً ستر ہزار افراد کو یا تو حراست میں لیا گیا یا انہیں برطرف کر دیا گیا یا انہیں تفتیش کا سامنا ہے۔

ان کارروائیوں کی وجہ سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ ترکی کے صدر اردوان اس موقع کو اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ ترکی کی فوج کے کچھ گروپوں کی طرف سے اس ناکام بغاوت کے دوران 270 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہو گئے تھے۔