جاگیرداری زوال اور اجارہ داری

Feudalism

Feudalism

تحریر : شکیل مومند
مغل جاگیرداری نظام میں اس وقت زوال آنا شروع ہوا جب سلطنت بہت زیادہ پھیل گئی اور منصب دار جاگیرداروں کی تعداد بڑ گئی۔ اگرچہ فتوحات کی وجہ سے بہت سی نئی زمینیں بھی سلطنت میں داخل ہو گئی۔ مگر ان کا تناسب منصب دار وں کی تعداد کے مقابلے میں کم رہا۔ اس لیے یہ صورتحال رہی کہ اورنگزیب کے آتے آتے منصب داروں کو کئی سالوں تک جاگیریں نہیں ملتی تھی۔ جاگیروں کے حصول کے لیے یہ منصب دار سفارشیں کرواتیں ، رشوتیں دیتے اور اپنے مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے گروپ بندی کرتے ۔ اس نے دربار کی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ اس مالی بحران میں منصب داروں کو صرف اپنے مفادات تک محدود کر کے رکھ دیا۔

بہادر شاہ اول کے زمانے میں جاگیروں کی ضرورت پڑی تو انہیں خالصہ کی زمینوں سے نکالا گیا جب یہ بھی ختم ہو گئی تو اس پر غور کیا گیا کہ راجپوتانہ پر قبضہ کر کے اس کی زمینوںکو بحیثیت جاگیر دی جائے۔ اس وقت تک فوج میں اتنا دم نہیں رہا کہ وہ راجپوتوں سے جنگ کرسکیں۔ اس لیے یہ مخصوص خیال منصوبہ ہی رہا۔ فرخ سیرکے زمانے میں یہ حالت ہو گئی تھی۔ کہ کاغذات مل جاتے تھے مگر جاگیرپر قبضہ نہیں ملتا تھا۔ اب جاگیر پر وہی قابض ہو سکتا تھا جس کے پاس فوجی طاقت ہو۔

اگر فوجی طاقت والا جاگیر پر قبضہ کر لیتا اور وہاں سے ریوینیو بھی وصول کر لیتا۔ اور وہ اس کو اپنا حق سمجھتا تھا۔ اور شاہی خزانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ اورنگزیب کے بعد تخت کے حصول کے بعد امیدواروں میں مسلسل خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ محمد شاہ کے عرصے میں یہ صورتحال رہی ۔ خالصہ کی تمام زمینیں ختم ہو گئی۔ اس کی وجہ سے بادشاہ کے اختیارات اور اس کی حیثیت پر بڑا اثر پڑا۔ کیونکہ وہ اب اپنی ذاتی اخراجات اور عملے کی تنخواہ کے لیے دوسروں سے سوال (خیرات )کرتا تھا۔ اس طرح وہ ایسٹ انڈیا کے تحفظ میں آیا۔ فاضل بادشاہ مخصوص کٹھ پتلی بن کر رہ گیا۔ جاگیرداری کے نظام کو اس بحران سے نکالنے کے لیے جاگیرداروں نے اجارہداری کا طریقہ اختیار کیا۔

Shah Jahan

Shah Jahan

اس میں جاگیردار پورے سال کے آمدنی وصول کر کے کسی کو یہ اجارہ پر دے دیتا تھا۔ یہ طریقہ ابتداء میں جہانگیر کے عہد سے شروع ہوا اور شاہجہان کے زمانے تک مقبول رہا۔ مگر اس کا رواج خالصہ کی زمینوں پر نہیں تھا۔ اس نظام سے جاگیردار کو تو فائدہ ہو جاتا تھا۔ کہ اسے رقم یکمشت مل جایا کرتی تھی۔ مگر اس نے کسانوں کی حالت کو متاثر کیا۔ جس نے کاشتکاری کو خرابی کے راستے پر ڈالا۔ اورنگزیب نے اس کے خلاف اقدامات کیے۔ مگر اس کے باوجود یہ طریقہ جاری رہا۔ خصوصاً اسے آخری عہد مغلیہ میں جاگیرداری کے سیاسی انتظام کے تحت اس طریقے کو اپنا لیا۔ اس میں ان کو نہ تو محنت کرنی پڑتی تھی۔ اور نہ ہی ان کا مالی نقصان تھا۔

Bahadur Shah

Bahadur Shah

اس لیے بہادر شاہ کے زمانے سے لیکر فرخ سیر تک یہ اجارہ داری کا نظام مستحکم ہو گیا۔ اور اس نظام کی وجہ سے منافع خوروں اور استحصالیوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا یہ اجارہ دار مالدار اجارہ دار تھے ۔جن لوگوں نے اجارہ داریاں خریدی انہوں نے اس نظام سے بہت منافع کمایا۔ اس صورتحال سے بدمعاش جاگیرداروں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ اول تو انہوں نے زمینداری کے حقوق کے لیے پھر اجارہ داری شروع کر دی۔ اور یوں کئی زمینوں کو اپنی جاگیر میں شامل کیا۔ اس سے دولت کمائی انہوں نے سودی کاروبار بھی شروع کر دیا۔

جس کی وجہ سے دیہات میں استحصالیوں کا ایک اور طبقہ پیدا ہوا۔ اس صورتحال کی وجہ سے جاگیرداری نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ ریوینیو کی زیادتی کی وجہ سے زمینداروں نے بغاوتیں کیں۔ چنانچہ اس کا ایک اور نتیجہ کسانوں کی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ سترھویں صدی کے اختتام تک مغلوں کا نظام جاگیرداری شکستہ و خستہ ہو کر ٹوٹ چکا تھا۔ جاگیرداری کے اس زوال کے ساتھ مغل طاقت کا بھی زوال ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ راجپوت ، افغان ، جاٹ، سکھوں اور انگریزوں نے مغل سلطنت کے حصے مخرے کر کے اپنے اقتدار قائم کر لیا۔

تحریر : شکیل مومند