افسانہ نجات

Door Bell

Door Bell

تحریر : مریم ثمر
دروازے کی بے وقت بجنے والی گھنٹی اس وقت سر پہ کسی ہتھوڑے کی مانند محسوس ہوئی ، سرفراز صاحب کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے، گردن گھما کر بیگم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ،شائستہ بیگم تو جیسے پہلے سے ہی تیا ربیٹھی تھیں۔ فورا رضائی کو اپنے اوپر کھسکا لیا
”لو بھلا اب اس سردی میں کون باہر جائے۔”
سرفراز صاحب شائستہ بیگم کے خاموش انکار کو سمجھ چکے تھے چارو ناچار خود ہی اٹھے۔ پلنگ کے نیچے پڑی چپلوں کو ٹٹول کر باری باری پہنا ،کرسی سے گرم چاد راٹھاکر پنے ارد گرد اچھی طرح لپیٹی ، ہاتھوں کوکوٹ کی جیب میں ڈالا اور آنے والے کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتے بڑ بڑاتے ہوئے دروازے کی طرف چل دیئے ۔

بیٹھک کے ساتھ بچوں کا کمرہ تھا جہاں سے جاندارقہقہے وقفے وقفے سے باہر آتے اور پھر واپس لوٹ جاتے وہ سب موسم سے بھرپور لطف اٹھاتے چلخوزے اور مونگ پھلی کھا تے ہوئے کیرم کھیل رہے تھے ۔
سرفراز صاحب نے بچوں کے کمرے میں جھانکا، کھیل میں مگن دیکھ کر اطمنان کا سایہ ان کے چہرے پر لہرایا اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے بیرونی دروازے کے قریب پہنچے ۔وہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتے تھے اس لئے بند دروازے سے ہی مخاطب ہوکر بولے ۔

”کون ہے بھئی ۔”؟ ان کی آواز میں برہمی اور ناگواری تھی ۔
”صاحب جی بہت سردی ہے اگر تھوڑی دیر کے لئے اند ر آنے کی اجازت مل جائے تو میں کچھ دیر یہاں رک جاوں ،بارش تھمتے ہی چلا جاوں گا ۔”
سرفراز نے دروازے کے سوراخ سے جھانک کر باہر دیکھا ۔ایک بوڑھا لاغر جسم سردی سے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔بوڑھے نے چہرے کوچادر سے چھپا رکھا تھا اس لئے پہچاننے میں دشواری ہورہی تھی ، ایک لمحے کے لئے سر فراز صاحب نے سوچا، بیٹھک کادروازہ اسکے لئے کھول دوں ، مگرپھر آئے روز دہشت گردی کی خبروں اور متنبہ کرنے والے اشتہارات نے اسے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔

Oldman

Oldman

نجانے کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے ۔؟ ور پھر آجکل کے حالات بھی تو ایسے نہیں کہ کسی اجنبی کو محض ہمددری کی وجہ سے اور اس پر ترس کھا کر گھر کے اندر گھسا لیا جائے ۔ کیا پتہ کوئی دہشت گرد ہی ہو اور بہانہ بنا رہا ہو ۔
”ہمارے گھر کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ساتھ والے گھر سے پتہ کر لیں ۔”سرفراز صاحب صاف انکار کرتے ہوئے پلٹ آئے ۔
شائستہ بیگم نے رضائی ذرا سی سرکائی اورسوالیہ اندازمیں بولیں ” کون تھا ۔ ؟
”پتہ نہیں لوگوں کو بھی گھر میں چین نہیں آتا بھلا اس سردی اور بارش میں باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آرام سے گھر بیٹھیں ۔ نہ عمر دیکھتے ہیں نہ وقت ۔ ”

سرفرازصاحب کے لہجے میں کافی جھنجھلاہٹ تھی ۔شاید وہ اس کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے ۔ مگر بدلتے ہوئے ناموافق اور خراب حالات ایسا کرنے سے روک رہے تھے ۔ سرفراز صاحب نے چادر کرسی پر رکھتے ہوئے کہا ۔ سلیپر اتار کر پھر بستر میں گھس گئے ،اورضائی سر تک لے کر خود کو گرم کرنے لگے۔
یہاں سے مایوس ہوکر بوڑھا سامنے بنی مسجد میں داخل ہوگیا ۔ اس پرکپکپاہٹ طاری تھی ۔ کپڑوں سے پانی نچڑ رہا تھا ۔مسجد کے سائیکل سٹینڈ کے اوپر پلاسٹک کی سبز رنگ کی چادر تنی تھی وہ قدرے اطمنان سے ایک کونے میںسمٹ کر اکڑوں بیٹھ گیا ۔ اور بارش تھمنے کا انتظار کرنے لگا ۔

اچانک ایک کرخت آوازاس کے کانوں سے ٹکڑائی ۔
”او ئے بابا ۔ یہاں کیوں بیٹھے ہو چلو اٹھو ! جاو یہاں سے ”
بوڑھے نے آہستگی سے گردن گھما کردھندلائی ہوئی آنکھوں سے آواز کی سمت دیکھا ۔ اب تو اس میں بولنے کی سکت بھی نہیں رہی تھی
درمیانی عمر کا ایک نوجوان سفید اور کالے رنگ کے ڈبیوں والے کمبل کی بکل مارے ایک ہاتھ سے چھتری تھامے غصے سے تلملاتا ہوا قریب آیا ۔

”پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہیں ۔ مسجد کو اپنے باپ کا گھر سمجھ رکھا ہے ۔”
بوڑھے نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے سرجھکائے ہانپتے کانپتے باہر آگیا ۔ کپکپاہٹ میں تیزی آگئی تھی ۔ قدم اٹھانا محال ہورہے تھے ۔سردی سے دانت بج رہے تھے ۔
اس نے دیکھا ایک کتا تھڑے کے نیچے بارش سے بچنے کے لئے پناہ لئے ہوئے ہے ۔ اگرچہ وہ بھی بری طرح بھیگ چکا تھا مگر کم از کم اسے ایک محفوظ چھت میسر آگئی تھی ۔ اس لئے اطمنان سے اگلی دونوں ٹانگوں کو کراس کا نشان بناکر زمین پر لیٹا ہوا تھا ۔ اس نے ایک نظر بوڑھے کی طرف دیکھا اور ہلکی سی بھوں کی آواز نکال کر سر کو دوبارہ ٹانگو ں پررکھ دیا مگر اپنی گول مٹول آنکھیں بوڑھے پر مرکوز رکھیں ۔ چند لمحے خاموشی سے دیکھنے کے بعد بیزاری سے بند کر لیں ۔
بادل ایسے گرج برس رہے تھے کہ جیسے اس کی غربت کا سارا غصہ اسی پر نکال رہے ہوں ۔
بارش مسلسل برس رہی تھی دن ڈھل رہا تھا ۔آواز سے پتہ چلتا تھا کہ پانی نالیوں میں تیزی سے بہہ رہا ہے بھیگے مکانوں کے بند دروازں پر اندھیروں کا راج تھا کہیں سے روشنی کی ایک کرن بھی دکھائی نہ دیتی تھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے روشنی ڈر کے چھپ گئی ہو بوڑھا سیاہ مکانوں کے گھیرے میں تھا بارش کی ہولناک آواز اور گھن گھرج مزید نمایا ں ہوتی جارہی تھی ۔ دور کہیں بلیوں کے رونے کی آواز ماحول کو پراسرار بنا رہی تھی ۔ چھجوں اور ٹین کی چھتوں سے ٹپکنے والا بارش کا پانی بھی انھیں آوازوں میں شامل تھا ۔

Poor Mother

Poor Mother

بوڑھے نے معدوم ہوتی روشنی میں اپنے ہاتھوں اور پاوں کی انگلیوں پر نظر ڈالی جو اب سن ہوچکیں تھیں اور ان میں بے شمار باریک لائنیں بن گئیں تھیں جیسے کسی نے مشکل راستے بنا دیئے ہوں وہ ان بھول بھلیوں میں کہیں کھو گیا ہو ،اس کے گھر کا چند قدم کا فاصلہ جیسے میلوں پر محیط ہوگیا تھا۔
رفیق احمد عرف فیقا اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں داخل ہوا ۔ سامنے جواں سال بیوی فرش پر لیٹی تھی اس کی ننھی بچی چھاتی سے لگی دودھ کے لئے منہ مار رہی تھی ۔ کچھ نا ملنے پر او ۔ویں او ۔ ویں کرنے لگتی۔ تلاش کا یہ سلسلہ نا جانے کب سے جاری تھا
اسے اندر آتا دیکھ کر بچی کو ایک طرف لٹا دیا اور لپک کر قریب آئی
”بڑی دیر کردی فیقے ؟ بچے کب سے بھوک سے بلک رہے تھے ،ابھی سونے کے لئے لیٹے ہیں، کچھ لایا بھی ہے یا آج پھر خالی ہاتھ آگیا ہے ؟”
اس نے سہارا دے کر اپنے سر کے سائیں کو بٹھانے کی کوشش کی ،” ارے تجھے تو تپ چڑھ گئی ۔ ادھر آرام سے بیٹھ جا ۔

” بیوی کے چہرے پر تشویش کے نمایاں آثار تھے ۔
وہ خاموش اور خالی نظروں سے اسے دیکھے جارہا تھا ۔
”کچھ بولے گا بھی یا نہیں ۔ ؟کیا لایا ہے کھانے کو ؟”اس کی بیوی نے کریدا
وہ بے بسی کی تصویر بنا اس کے سامنے بیٹھا تھا اس نے آدھا کھایا سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا اس کی طرف بڑھایا ساتھ ایک ہڈی بھی تھی جس کے ایک طرف تھوڑی بوٹی لگی رہ گئی تھی ۔
”یہ کہاں سے مل گئی تجھے ۔؟” بیوی نے پوچھا ۔

”اللہ کی زمین سے۔۔ تو اسے کھالے اور بچوں کو بھی کھلا دے ۔” اس نے نظریں چراتے ہوئے ہلکی آواز میں بمشکل کہا ۔
فیقے سے ا پنی بے بسی برداشت نہیں ہورہی تھی ۔ اس نے ادھر ادھر بے چینی سے دیکھا بچے کئی دنوں کے فاقے سے سوکھتے جارہے تھے پیٹ خالی ہونے کے باوجود ایسے بھرے اور ابھرے ہوئے تھے کہ جیسے ان میں کھانا زبردستی ٹھونس دیا گیا ہو ۔
اس نے ایک نظر اپنی کچی کوٹھری پر ڈالی چھت گھانس پھوس اور پرانے کپڑوں سے ملا کربنائی گئی تھی ۔اینٹوں کے آس پاس کی مٹی گارا بن کر بہہ چکی تھی ،چھت کو سہارا دینے والی لکڑی بھی خستہ حال ہوچکی تھی ۔ دروازے پر پڑے ٹاٹ کے لیرو لیر کپڑے سے ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے اندر آرہے تھے اس نے سر اٹھا کر ایک ہی نظر میں چھت کا جائزہ لے لیا ہر طرف رنگ برنگے لٹکتے ہوئے کپڑے او ر ان سے ٹپ ٹپ کرتا پانی ۔اس کی غربت کا مذاق اڑارہے تھے ۔ اس نے ایک لمحے کو کچھ سوچا اور ایک دم اٹھ کھڑا ہوا ۔ نیچے لٹکتے لیرو لیر دو تین کپڑوں کو ایک ساتھ کھینچنا شروع کر دیا ۔نجانے کہاں سے اس میں بجلی کی سی طاقت آگئی تھی ۔
فیقے کی بیوی گھٹی گھٹی چیخ نما آواز نکالتے ہوئے اس کی طرف لپکی ۔

Roof Falling

Roof Falling

” نا کر فیقے کیا کر رہا ہے چھت گھر جائے گی کچی ہے مگر فیقے پر تو جیسے وحشت سوار تھی ۔
سورج انگڑائی لے کر بیدار ہو ا ۔ بادل اپنے آنچل کو لہراتے کبھی سورج کے قریب آتے تو کبھی دور چلے جاتے ۔اس آنکھ مچولی میں سورج کی کرنیں سونے کی طرح شفاف اور چمکدار ہر طرف اپناجلوہ بکھیررہی تھیں درخت ایک دن پہلے کی بارش سے نہادھو کر تازہ دم ہوگئے تھے
ہلکی ہلکی ہوا چلتی تو پتے ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ۔اتنی خوشگوار صبح ہونے کے باوجود ایک عجیب قسم کی اداسی فضا میں رچی بسی تھی ۔
سرفراز کے گھرکی گھنٹی بجی ۔وہ اس وقت ناشتہ کر رہا تھا ۔ جلدی سے گرم چائے کی ایک چسکی بھر کر ٹیبل پر رکھی اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
محلے کے چند معزیزن باہر جمع تھے ۔
سلام دعا کے بعد سرفراز صاحب نے پوچھا
”خیر تو ہے حاجی صاحب ۔”؟

”خیریت ہی تو نہیں ہے ، رات فیقے کے گھر کی چھت گر گئی ، پورا خاندان اس کے نیچے آگیا ،کوئی بھی زندہ نہیں بچا ،اب عصر کے بعد نماز جنازہ ہے ، آپ سے درخواست ہے کہ شرکت فرمائیں ۔ اور کچھ رقم بھی دے دیں تاکہ کفن دفن کا انتظام کیا جائے ۔
”آپ اندر تشریف لے آئیں ۔ ”سرفرازصاحب نے بیٹھک کا دروازہ کھولتے ہوئے انھیں اندر آنے کا کہا ۔
سب باری باری اندر آکر کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
سرفراز صاحب نے حاجی صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
”جی جی ضرور حاجی صاحب یہ تو ثواب کا کام ہے ، یہ پانچ سو روپے تو ابھی رکھ لیں ، میں بیگم کو بتا کے آتا ہوں صدقہ و خیرات کرنے میں و ہ مجھ سے بھی زیادہ تیز ہیں۔”
سرفراز نے یہ کہتے ہوئے روحانی خوشی محسوس کی
حاجی صاحب نے تسبیح کے دانوں کو گھماتے ہوئے کہا،”ا س دفعہ میں پھر عمرہ او رحج کے لئے جارہا ہوں ، چوتھا حج ہے میرا ماشاء اللہ اور عمرے تو اتنے کر چکا ہوں کہ گنتی بھی یاد نہیں رہی ، اس سال بھی جانے کا ارادہ ہے ، سرفراز صاحب آپ کے لئے تو خاص دعا کروں
گا ۔” ان شاء اللہ

Charity

Charity

”ماشاء اللہ ، ماشاء اللہ ۔ جسے اللہ توفیق دے ،جس کی قسمت اور نصیب۔” سرفراز نے مرعوب ہوتے ہوئے جواب دیا ۔
میرے لئے دعا کرنے کا بہت شکریہ حاجی صاحب اللہ آپ کے حج اور عمرے قبول کرے ۔ ”
”سرفراز صاحب ایک بات اور بھی کہنی تھی ۔ ماشا ء اللہ آپ فی سبیل اللہ بہت کام کرتے ہیں ایک تجویز بھی زیر غور ہے میرا ایک پلاٹ برسوں سے خالی پڑا ہے ایک خوبصورت سی مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے تمام مراحل بفضل خدا طے پاچکے ہیں ۔ بس تھوڑی رقم کی کمی آڑے آرہی ہے ۔ ہوسکے تو آپ بھی اپنا حصہ ڈال کر ثواب حاصل کیجیے ۔ ”
”جی جی حاجی صاحب کیوں نہیں نیکی او ر پوچھ پوچھ ۔ ابھی لیجئے جتنی بھی مساجد ہوں کم ہیں ۔ آخر ہمارا مقصد حیات۔ اللہ کی عبادت ہی تو ہے ۔ ”
وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آئے بیگم چائے کا کپ ختم کر چکی تھیں ۔ اور برتن سمیٹ کر کچن میں رکھنے جارہی تھی ۔ سرفراز بھی پیچھے پیچھے کچن میں چلے آئے اور بولے
”ہاں بھی شائستہ بیگم محلے میں فوتیدگی ہوگئی ہے ۔ کچھ دینا چاہو تودے دو اور ہاں نئی مسجد بھی بن رہی ہے اس کے لئے بھی اگرٍچندہ دے سکوتو اچھا ہے ۔

”ارے یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ ”؟
بیوی نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہا ”یہ لیں ایک ہزار میری طرف سے اور پانچ ہزار مسجد کے لئے اور ہاں میرے پاس کچھ فالتو کمبل بھی پڑے ہیں آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ اب بچے انھیں استعمال نہیں کرتے ، وہ بھی ساتھ دے دیں ،سنا ہے مردوں کو بھی ٹھنڈ لگتی ہے۔”

Maryam Samar

Maryam Samar

تحریر : مریم ثمر