کسی دن یہ فلم چل ہی جائے گی

Hameed Gul

Hameed Gul

تحریر: عبدالوارث ساجد
10جولائی کے روزنامہ جنگ میں بلال غوری صاحب کا کالم ”جنرل حمی د گل صاحب کوئی نئی فلم چلائیں ” شائع ہوا۔ جس میں بلال غوری صاحب نے بڑے غلط انداز سے جنرل حمید گل صاحب کی تضحیک کی اور ان کے سلیم صافی کو دیئے گئے ”جرگہ” میں انٹر ویو کو بنیاد بنا کر کسی اور کا کینہ اپنے قلم سے بیان کیا۔

جنرل حمید گل صاحب کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے جمہوریت اور آئین کی آڑ لے کر لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں کا راستہ روکنے کیلئے ان کے پشتیبان جمہوریت اور آئین کو درست کرنے یا اس کی جگہ اسلام کے نفاذ کی بات کی۔ ایسا اسلامی آئین جس میں سب برابر ہوں ۔ موجودہ آئین نہیں جس کے نفاذ کی کوئی مثال کم اذ کم کسی امیر پر کہیں نظر نہیںآتی ہاں پتنگ بازی کرنے پر غریب کے بچے کو ہتھکتری تو لگا دی جاتی ہے مگر اربوں ڈالر سمگلنگ کرنے والی ماڈل کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔

ایسی ڈھکی چھپی باتوں سے غوری صاحب بے خبر نہیں ہمارے سیاستدانوں نے آئین اور جمہوریت کے نام پر کرپشن کا جو بازار گرم کیا ہے اس سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو تخفظ کون دیتا ہے؟ یہی جمہوریت اور یہی آئین تو پھر ایسے آئین کا کیا کیا جائے جو اربوں لوٹنے والے کو تو تحفظ دے اور غریب کے منہ سے نوالہ چھین لے اور اگر کوئی محب وطن ایسا کہہ دے کہ آئین و قانون ایسا ہو جس میں کوئی بچ نہ پائے اور بچنے کے راستے دینے والے قانون کو ختم کر دیا جائے تو پھر بلال غوری جیسے لکھاری سچ کہنے والے کو ہی مجرم بنانے لگتے ہیں۔

Democracy

Democracy

ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی حق کی کوئی بات کر بھی دے تو اور وہ بھی نام نہاد جمہوریت کے خلاف تو مفاد پرست لوگ اس آدمی کو گندہ کرنے پر تل جاتے ہیں اور بات کا بتنگڑ بنا کر کرپشن زدہ سیاست دانوں کی حمایت کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے لکھاریوں کی کمی تھوڑی ہے۔جیسے محترم بلال غوری صاحب نے ”حق نمک” ادا کرنے کی کوشش کی۔ انہیں جنرل حمید گل صاحب کے خلاف کرنے والی بات کوئی نا ملی تو خوامخواہ کی شیر اور شکار کی فضول کہانیاں تراش کر اور عمر کا حوالہ دے کر دل کا غبار نکالنے لگے۔ ارے بھائی جنرل صاحب تو ہوئے 70 کے مگر آپ جوانی میں ہی سٹھیائی ہوئی بات کرنے لگے۔

بندہ خدا جنرل حمید گل نے ایسا کیا کہہ دیا کہ آپ ان پر برس پڑے۔ جنرل صاحب نے سی آئی اے کے بارے میں کچھ کہ دیا تو آپ کو کیوں اتنا برا لگا، آج کے دور میں کیا بات چھپی ہوئی ہے اور کون نہیں جانتا کہ امریکہ نے پاکستان میں کیا کھیل کھیلا۔ محترم غوری صاحب امریکی دفاع کرنے سے پہلے یہ بتا دیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں کیا کرتا رہا اور گرفتاری پر اس سے کیا منصوبے برآمد ہوئے۔ آخر صاحب بہادر امریکہ کو کیوں اس قدر اہم تھا کہ وہ ہر حال میں اسے چھڑا کر لے گیا۔ کیا وہ پاکستان کے مفاد کے لئے کام کررہا تھا یا تخریبی سرگرمیوں میں مگن تھا۔ پھر امریکہ پاکستان میں ملوث نہیں تو کیا ہے اور اگر یہ بات حمید گل کہہ دیتا ہے تو آپ جیسے لوگ کیوں چیخنے لگتے ہیں۔

رہی بات سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی تو بھی جنرل صاحب کا موقف ٹھیک ہے پاکستان میں قتل و غارت گری صرف دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک دہشت گردی اور دوسری جمہوریت ۔ غوری صاحب کسی دن تھوڑا وقت نکال کر دیکھیں کہ الیکشن اور انتخاب کی وجہ سے کتنے ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ پارٹیوں اور امیدواروں کے آپس کے جھگڑے الیکشن سے شروع ہو کر تین تین نسلودں تک چلے آ رہے ہیں۔ غنڈہ گردی اور تباہی کے اس کھیل میں صرف سیاسی جماعتیں اور افراد ہی ملوث ہیں۔ کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا آپ بخوبی جانتے ہیں کیا یہ سیاسی جماعتیں نہیں یہی سیاسی جماعتیں تفریق ڈالتی ہیں اورقرآن کی یہ کھلی مخالفت ہے۔

Election

Election

غوری صاحب کب تک اس جمہوریت کے نام پر ایسے غریب عوام کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا ۔ یہاں کون سا سیاستدان ہے جس کا کرپشن کا کیس نہ ہو یہاں غریب غریب تراور اسمبلی میں جاتے امیر،امیر تر کیوں رہے ہیں اور جب بھی ان کی کرپشن کی آواز اٹھتی ہے تو پھر کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کی فلم کب تک چلے گی آخر کو تو ایک نا ایک دن ایسا آئے گا جب عوام ایسی فلم چلائیں گے کہ تب یہ جموریت رہے گی نہ جمہوریت کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والے سیاستدان اور نہ ہی آئین رہے گا جس کی سب سے زیادہ فکر ان کرپشن زدہ سیاستدانوں کو ہے
غوری صاحب ایسے مرحلے کو انقلاب کہتے ہیں۔

تو کیا ایسی فلم چلنے سے پہلے بہتر نہیں کہ کوئی فیصلے کر لیں کہ ملک میں حکومت کیسی ہو اور انداز حکومت کیسا ہو ۔ موجودہ آئین جناب نہ قرآن ہے او ر نہ حدیث آپ نے ملک چلانے کا ایک لائحہ عمل مرتب کیا اسے آئین کہا اس میں اب تک کئی بار ترمیم کر لی گئی مفاد پرستی میں کئی بار اس آئین کو توڑا گیا اور مڑروا گیا تب نہ جانے آپ نے کیوں نہ لکھا کہ یہ آئین کی ناک کیوں مروڑی جا رہی ہے۔ میاں صاحب یا بی بی صاحبہ کس نے اس آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا؟ کرپشن بچانے اور اقتدار کے کھیل میں بار بار آنے کے لیے آ ئین کا سہارا کیا ماضی میں نہیں لیا گیا؟ تو اب آئین کیا ہوا جو عملدآرمد نہ ہو پائے اور روز اس کے ساتھ کھلواڑ ہی ہوتا ہواس آئین کو بدلنے کا کہنا تو جرم ہو گیا جو بار بار بدل چکے وہ مجرم نہ ٹھہرے۔

غوری صاحب اب آپ کہانیاں سنانا چھوڑیں۔ بہت ہوگیا اس ملک کے ساتھ۔ اب اس کھیل لوگ تنگ آ گئے ہیں ۔اب آپ جیسے لکھاریوں کی دال نہ گلے گی جو جس کی حکومت اس کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ آئین اور جمہوریت کے نام پر کرپشن کی فلم بند نہ ہوئی تو عوام اب کوئی فلم ضرور چلا دیں گے۔ تب آپ جیسے لوگوںکو سمجھ آے گی کہ جنرل حمید گل جیسے لوگ ٹھیک ہی کہتے تے۔

 Abdul Waris Sajid

Abdul Waris Sajid

تحریر: عبدالوارث ساجد