ہم منزل کے قریب ہیں مگر!

PSL Final

PSL Final

تحریر : رقیہ غزل
PSLکرکٹ کا کا فائنل بالآخرکامیابی کے ساتھ لاہور میں انجام بخیر ہوا تمام خدشات اور خوف ہار گئے پشاور زلمی کو جیت ہوئی سچ تو یہ ہے کہ پاکستان فتح یاب ہوابلاشبہ یہ دشمنان پاکستان کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے یقینا کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے شائقین جو کہ کر کٹ کے زوال پر دل گرفتہ تھے ان کے لیے نئی صبح طلوع ہو چکی ہے لیکن یہ عجب بات ہے کہ یہ احسن اقدام بھی پانامہ ردعمل کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ یہ سیاسی نہیں عوامی اجتماع تھابدیں وجہ عوامی جذبات کا مظاہرہ بھی سٹیڈیم میں سر عام ہوا باوجودیکہ اسے ثانوی حیثیت حاصل ہے پھر بھی جب ”گو نواز گو ” کے نعروں سے سٹیڈیم گونج اٹھاتو ایسے میں تمسخرانہ قہقہوں اور منتظمین کی دبی دبی خوشی اور غم کے حسین امتزاج والی ہنسی دیدنی تھی سچ کہتے ہیں کہ اگر عوامی دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا تو کسی طور تو لوگ اظہار کریں گے اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ”انسان پہاڑ سے گر کر تو کھڑا ہو سکتا ہے مگر نظروں سے گر کر کھڑا ہونا اس کے بس کی بات نہیں ہے ” ۔اطلاعات کے مطابق اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے میاں صاحب نے سٹیڈیم میں آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا جبکہ نجم سیٹھی جو کہ جب سے چئیر مین بنے ہیں مسلسل ہی تنقید کا شکار ہورہے ہیں مگر ڈٹے ہوئے ہیں کیونکہ انھیں یہ نفع بخش انداز راس آگیا ہے اب جبکہ پہلی مرتبہ داد سمیٹنے سٹیج پر آئے تو نعروںکی وجہ سے کئی بار ان کا تسلسل ٹوٹا یعنی طے ہوا کہ عدم اعتماد کی فضا ڈیرہ جما چکی ہے جبکہ اس موقع پر ایسے نعرے نہیں لگنے چاہیے تھے مگر کیا کریں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور سلگتے انگارے کسی وقت بھی دہک کر چمکار پکڑ لیتے ہیں مگر ۔۔یاد رہے ! یہ نعر ے میاں صاحب کے لیے نئے نہیں ہیں اور وہ ”گو نواز گو” سننے کے عادی ہیں کیونکہ ماضی میں میاں صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ایسے نعرے لگاتے رہے ہیں اور سدا علم مخالفت اٹھا کرایک دوسرے کے حکومتی کاروبار میں کیڑے نکالتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی تو فرینڈلی اپوزیشن کے لبادھے میں چھپی بیٹھی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے کوئی بھی وار کیا تو تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہو جائے گا لہذاپیپلز پارٹی کا ہر قدم بیان بازی سے شروع ہو کر مصلحت پر ختم ہو جاتا ہے ویسے بھی زرداری صاحب شطرنج کے تمام خانوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور تخت نشین بادشاہ سے لیکر پیادوں تک کو مصروف کرنا جانتے ہیں۔

عوامی اظہار نفرت کی جہاں تک بات ہے تو اس کا حیرت انگیز مظاہرہ تو اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب جناب شیخ رشیدپی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کے لیے لاہور پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر موجود ایک معمر شخص نے انھیں جوتا دے مارا یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت طرز عمل ہے جس میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جنھیں یہ جوتا پڑتا ہے ان کے کاندھوں پر ملک و قوم کی بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ یہاں تو صورتحال بالکل مختلف ہے کہ شیخ صاحب تو ہر طرح سے فارغ البال ہیں اس لیے یہ اظہار نفرت تاحال سمجھ سے بالاتر ہے ۔شیخ صاحب زندہ دل سیاستدان ہیں اور یقینا انھوں نے خود کوتھپکی دی ہوگی اور کہا ہوگا کہ تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ۔۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے !اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ایس ایل کے انعقاد سے لیکر اختتا م تک تمام واقعات اور رویے ہی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں مضحکہ خیز صورتحال تو یہ ہے کہ جس کسی نے بھی اس کشیدہ ماحول میںکرکٹ جنون کے بارے فکر مندی یا حالیہ دہشت گردی کی جاری لہر پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ اندھا کیا جانے بسنت کی بہاراور جو لیگی کارکن ذرا زیادہ منہ پھٹ واقع ہوئے تھے انھوں نے ایسا کہنے والوں پرسیدھا دشمنان پاکستان کا لیبل چپکا دیا یہی وجہ ہے کہ دوراندیش اور عاقبت اندیش طبقہ تہیہ کر چکا ہے کہ
باہوش بنیں گے نہ قدح خوار بنیں گے
جو آپ بنا دیں وہی سرکار بنیں گے
اور دوسروں کو بھی یہی رائے دیتے ہیں کہ
بہتر ہے کہ خاموش ہی بیٹھے رہیں حق گو
کھولیں گے لبوں کو تو گنہگار بنیں گے

بہرحال حلقہء خاص و عام کے بعض گروہوں کے اخلاقی زوال پر میں بارہا قلم اٹھا چکی ہوںاور برملا کہتی ہوں کہ عدم برداشت ہمارے رویوں میں گھر کر چکا ہے جب پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے کا فیصلہ ہوا توخان صاحب نے بیان داغا کہ ”لاہور میں یہ میچ کرواناپاگل پن ہے ”۔رائے کا اظہار کرنا ان کا حق تھا مگر الفاظ کا چنائو انسان کی سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو ظاہر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات نے انھیں پاکستان کے بال ٹھاکرے کا خطاب دے دیا اور اکثر حکومتی طرفدار صحافی انھیں نریندر مودی کہہ کر پکارتے رہے اور ہمیشہ کی طرح جناب رانا ثنا اللہ نے جلتی پر تیل چھڑکنے کی روایت کو روا رکھتے ہوئے انھیں پاگل خان کہہ دیا ۔ یہ بیانات یقینا نئے نہیں ہیں اس سے بھی تھرڈ کلاس فقرے اور خطابات ایک دوسرے کو ہمارے معزز سیاستدان اکثر دیتے ہی رہتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ان بیانات سے ملک و قوم اور دنیا کو ہمارے بارے کیا تاثر ملتا ہے اس پر کون سوچے گاجبکہ جنھیں سوچنا تھا وہ بھی ان رویوں کا دفاع کرنے کے لیے بر سر پیکار نظر آئے۔

ان حالات میں راقم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ نہ خوفِ خدا ہے نہ خوف ِ خدائی ۔۔بشر دے رہا ہے بشر کی دہائی سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”و قُولو ١للنّاس ِحُسناً”اور لوگوں سے عمدہ بات کیا کرو” بلاشبہ زبان باطن کی عکاس ہوتی ہے اور زبان سے کہی گئی بات کے ذریعے ہی انسان کسی کے دل پر اپنی شخصیت کے نقوش چھوڑتا ہے اگر زبان سے اچھی گفتگو کی گئی ہو جس میں دوسرے کی دل آزاری یا ذلت نہ کی گئی ہو تواس کا اثر مثبت ہوگا اور اگر زبان کو فحش اور فضول گوئی سے انسیت ہوئی تو بات کا منفی اثر ہوگا ۔اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مومن کی زبان ذکر الہی سے انسیت رکھتی ہے اور اس کی زبان پر ہر وقت اللہ عزوجل کی حمد و ثنا جاری رہتی ہے جس کی بدولت اس کا قلب و ذہن بھی زبان کے موافق ہو جاتا ہے مگر ۔۔وائے افسوس ۔۔ زبان دل کی موافق نہیں رہی بلکہ کسی کی زبان سے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی بریں سبب مسلمانوں کی زبوں حالی بڑھتی جا رہی ہے یوں لگتا ہے کہ برسر اقتدار طبقہ خود کو بالکل غیر محفوظ اور بے وقعت سمجھنے لگا ہے جبکہ اقتدار سے محروم تو دشنام طرازی اور فتنہ بازی کیا ہی کرتے ہیں مگر اگر بر سر اقتدار بھی اسی سطح پر آجائیں گے تو کوئی افضل نہ رہے گااورہمارے سیاستدانوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے کہ چند سالوں سے میڈیا کے توسط سے سب نے یوںایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی ہیں ،اپنوں کو سر عام نوازا نے کا خود اقرار کیا ہے اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر تشہیری منصوبوں کی بنیادیں رکھی ہیں کہ اب ہر کوئی یہ کہتا پھرتا ہے کہ
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے

ویسے خدا لگتی کہوں تواور برے حالات کیا ہونگے کہ عوام کبھی بھوک سے ،کبھی دہشت گردی سے اور کبھی مسیحائوں کی غفلت سے بے وجہ اور بے وقت مر رہے ہیں ابھی جب کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تھا تو ایک خبر ٹی وی سکرین پر نظر آئی کہ جہلم کے ہسپتال میں ایک بچہ ماں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کیوجہ سے واپس کردیا گیا اور وہ اپنی فریاد لیکر ایم ایس کے پاس گئی تو اس نے بھی جھاڑ پلا دی اور ہسپتال سے باہر نکلتے نکلتے بچے نے جان دے دی ۔ہم کب تک مذمت کے علمبردار مگر تاجر قسم کے ڈاکٹروں کی زیادتیوں اور سنگ دلیوں کے واقعات رقم کرتے رہیں گے اس بارے کوئی حتمی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا ؟ ہسپتالوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے ؟آئے روز ہڑتالیں کرنے والوں کو کیوں مریضوں کا درد محسوس نہیں ہوتا ؟ چلیں مان لیا کہ اب شناختی کارڈ ضروری ہے لیکن ایک ماں جب اپنے بچے کو تڑپتا ہوا دیکھتی ہے تو اسے اپنی چادر کی ہوش نہیں رہتی پھر آپ اس سے اس کی شناخت لانے کا کہہ رہے ہیں ۔۔؟یہ کارڈ بعد میں بھی آسکتا ہے سیکیورٹی کیمرے کس شناخت کے لیے ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ مسیحا ئی کے دعوے دار قصائی بن چکے ہیں ؟ اسی طرح اب ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حالات کا قریب سے جائزہ لیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات بھی اپنے بعض ڈاکٹر اور پروفیسر درجے کے اساتذہ کے ہاتھوں دل گرفتہ ہیں حالانکہ ڈاکٹر اور پروفیسر جیسے ایسے عزت اور تعظیم لائق منصب ہیں کہ لب کشائی بھی زیب نہیں دیتی مگر کیا کیا جائے کہ ایک صحافی کے ذمے ملکی اور قومی مفاد ات کو ذہن میں رکھ کر حق اور سچ گوئی کرنا پڑتی ہے۔

آج کل ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلہ کیلئے ٹیسٹ اور انٹرویوزہو رہے ہیں مرے مختصراً اشاروں سے آپ زیادہ سمجھ لیں کہ ایک بچہ یا بچی جو پی ایچ ڈی میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ میں ٹاپ کرے اور اس کا ایم فل رزلٹ بھی اعلیٰ درجے کے جی پی اے کے ساتھ پاس ہو تو بعض انٹرویو لینے والوں میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا حاسد اور گھٹیا سطح کا پروفیسر ایک آدھ استاد ایسا بھی ہوتا ہے جو صرف اس مایوسی پر اور حسد پر کدورت رکھ کر داخلہ نہیں ہونے دیتا کہ اس سٹوڈنٹ نے اس کے ساتھ تھیسز نہیں کرنا کیونکہ اس کے پہلے بہن بھائیوں نے نہیں کیا تھا یا یہ کہ وہ سٹوڈنٹ کسی دیگر کالج کا ٹاپر ہے اور یہ حالات پنجاب یونیورسٹی کے ہیں مگر ایسے قابل ،محنتی اور ٹاپر بچوں کے جنہوں نے راتوں جاگ کر محنتیں کی ہوتی ہیں انھیں جب حد درجہ ذلیل اور دل شکستہ کیا جاتا ہے ان کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے تو اسی وقت ان کے ذہن و دل میں انتقام کی آگ انتقام کی آگ سلگ اٹھتی ہے جو بعد ازاں وہ اپنی آئندہ زندگی منفی سوچ سے گزا ر دیتے ہیں مقام افسوس تو یہ ہے کہ کسی وی سی یاگورنر کو کبھی اس کا خیال نہیں آئے گااور مسئلہ وہی ہے کہ میرٹ پر بھرتیاں نہیں کی جاتیں ”ذاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ” ہیں جنھیں نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی فکر آخرت ستاتی ہے ۔فکر آخرت سے یاد آیاکہ پیٹرول کی قیمت مسلسل چہار بار بڑھ چکی ہے صرف اس بد نیتی کے ساتھ کہ اب جلد ہی ایک روپے کمی کی خوشخبری قوم کو سنائی جائے گی کہ ہم منزل پر پہنچ چکے ہیں ۔نہیں ۔نہیں ۔۔!ہم منزل کے قریب ہیں مگر ۔۔راستے کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اورتب تک بھٹکیں گے جب تک ہمارے دلوں میں دوبارہ ایمان زند ہ نہیں ہوجاتا اور ہم اپنی زندگیوں کو احکام الہی اور سنت نبویۖ کے مطابق گزارنے کا عزم نہیں کر لیتے تب تک فلاح و کامیابی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل