جو دل میں بیٹھتے تو

Poverty

Poverty

تحریر : رقیہ غزل
عام طور پر غربت معاشی نا ہمواری کو کہا جاتا ہے معاشی ناہمواری دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں غربت پیدا ہوتی ہے مگر میرے نزدیک غربت ایک ذاتی سوچ اور احساس کا نام ہے کیونکہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اس کا نظام انسانوں کے ہاتھ میں صرف تدبیر اور کوشش تک محدود ہے جبکہ یہ سارا نظام یوں اللہ تعالیٰ کی مشیت، عطا اور خیر و برکت پر ہے اگرچہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مخصوص ذمہ داریوں پر مامور ہیں لیکن وہ بھی مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کی ہیں یعنی یہ طے ہے کہ اس کائنات کا ایک پتا بھی اللہ کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا۔

جب اس پر ہمارا ایمان کامل ہے تو ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ امارت اور غربت کا تضاد روز ازل سے موجود ہے جو کہ خدائی نظام کا حصہ ہے مگر یہ دعائوں اور مشقت سے مشروط ہے یعنی مقدر ضرور ہے لیکن انسان اپنی محنت ،کاوش ،لگن اور دعا سے اسے بدل سکتا ہے اسی لیے تو کسی نے کہا تھا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ مخمل کے گدوں پر سونے والوں کے خواب ننگی زمین پر سونے والوں کے خواب سے مختلف نہیں ہوتے تب سے مجھے خدائی انصاف پر مکمل بھروسہ ہوگیا یعنی عدم مساوات کو انسان نے اپنی سوچ سے پھیلایا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات اور زکوہ کا نظام اسی لیے قائم کیا ہے کہ غریب کی حالت بہتر ہو سکے اوراس نظام کو رائج کرنے کے لیے اللہ نے حاکم وقت کو پابند کیا ہے اب نواز نے والے نے تو نواز دیا ہے مگر اب ہم انسانوں پر ہے کہ ہم شیطان یا ررحمان میں سے جس کا چاہیں راستہ اختیار کریں اور اسی فیصلے کے مطابق ہمارا حساب ہو گا ذرا اس سے اندازہ لگائیں کہ گھر میں رکھے گئے ایک پالتو کا حساب دینا کتنا مشکل ہے تو بیس بائیس کروڑ کا حساب دینے والے کو سکون کی نیند کیسے آسکتی ہے اسی لئے تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ فقیر کی بھوک اس کی جان کھاتی ہے جبکہ سلطان کی بھوک ملک و ملت کھا جاتی ہے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی جو کہ فاتح بیت المقدس ،فلسطین ،شام، اردن ،لبنان اور مصر تھا جب اس کا انتقال ہوا تو کفن کے لیے قرض حاصل کر کے تدفین کا انتظام کیا گیا تھا ،ان کی وفات کے بعد جب ذاتی مال و ملکیت کا حساب کیا گیا تو ایک گھوڑا ،ایک تلوا ر،ایک زرہ ،ایک دینار اور چھتیس درہم کے سوا کچھ نہ تھا ۔آپ شدید خواہش کے باوجود حج نہ کر سکے کیونکہ حج کے لیے رقم نہ تھی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن حکمرانوں کو روز محشر خلق خدا کی ذمہ داریوں کے حساب کی فکر تھی انھوں نے پر تعیش زندگیوں پر سادہ زندگیوں کو ترجیح دی اور رہتی دنیا تک اپنے مثالی کردار کے انمٹ نقوش ثبت کئے۔

دنیا ترے قرطاس پہ کیا چھوڑ گئے ہم
اک حسن بیاں حسن ادا چھوڑ گئے ہم
ماحول کی ظلمات میں جس راہ سے گزرے
قندیل محبت کی ضیا ء چھوڑ گئے ہم

قارئین کرام ! اس تمہید کا مقصد غربت کا نوحہ نہیں کہ وہ تو صدیوں سے لکھا جا رہاہے اور نہ ہی اس کا مقصد کسی کو ذمہ دارٹھہرانا ہے کہ یہ بھی ہمیشہ سے ہو رہا ہے کہ کارل مارکس ،لینن اور سقراط سمیت سبھی نے غیر مساوی حقوق کا رونا رویا اور غریبوں کو کہا کہ وہ اپنا حق پہچانیں مگر وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی کے سامنے ناتواں جسموں کی ایک نہ چلی پھر بھی درد دل رکھنے والے بر سر پیکار رہے کہ نیلسن منڈیلا نے کہا کہ غربت بھیک سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے اور وہ جناب عبدالستار ایدھی ایسے انسان کہ جس کے اثاثوں میں انسانیت کے غم نکلے یوں گویا ہوئے کہ” میں تعلیم حاصل نہ کر سکا مگر میں نے مارکس اور لینن کی کتابیں پڑھی ہیں ،میں نے کربلا والوں کی زندگی کو پڑھا ہے ،میں نے ابو ذر غفاری کی تاریخ پڑھی ہے ،اور میں تمہیں بتاتا ہوں اصل جنگ ظالم اور مظلوم کی ہے ،حاکم اور محکوم کی ہے۔

اس سے ثابت ہوا غربت عالمگیر مسئلہ ہے اسی لیے میں آج خوابوں ،وعدوں اوردعووں سے ہٹ کربات کر رہی ہوں کہ صورتحال اس حد تک گھمبیر ہو چکی ہے کہ آج سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس غربت جیسے ناسور سے بچے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کہ والدین اپنی معاشی حالت کی بہتری کے مدنظر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑاتے ہوئے اپنے معصوم پھولوں کو خوش حال لوگوںکے پاس چھوڑ دیتے ہیں اور وہ ان سے زر خرید غلاموں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہیں بے شک انسانوں پر تشدد کا معاملہ نیا نہیں ہے یہ وہ واقعات ہیں جو آئے روز ہوتے رہتے ہیں اور تب تک ہوتے رہیں گے جب تک غریب کے حالات نہیں بدلتے۔۔ ! اگر حکمران طبقہ سادگی اختیار کرے تو غریب کے حالات کیوں نہیں بدلیں گے ؟مگر اس عیش و عشرت والی حیات کوچھوڑنے پر کون رضامند ہوگا بالفرض کوئی ہو بھی گیا تو وہی ہوگا جو ملک معراج خالد کے ساتھ ہوا تھا کہ جب مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انھوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا پروٹوکول منع کر دیا ایک دن وہ مال روڈ سے گزر رہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہر طرف سے ٹریفک جام کر رکھی تھی۔

Protocol

Protocol

آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انھوں نے گاڑی کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا ”بھائی پچھلے نصف گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ”؟کانسٹیبل نے انھیں پہچانے بغیر کہا ”جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گزر رہے ہیں ”ملک معراج خالد نے خواجہ رحیم سے موبائیل پر رابطہ کیا اور کہا”آپ کے پروٹوکول میں تو میں بھی پھنسا ہوا ہوں ”خواجہ صاحب نے قہقہ لگایا اور کہا” معذرت مگر اب تو یہ ٹریفک میرے گزرنے کے بعد ہی کھلے گی اور میرے گزرنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے ”۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خواجہ صاحب کا قافلہ کافی دیر بعد گزرا اور سادگی پسند وزیراعظم کو دو گھنٹے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا ۔اس واقعہ کو سیاسی لطیفے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہ وقوعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معاشی اور معاشرتی مساوات کے منہ پر طمانچہ ہے۔

المیہ یہ ہے کہ فرد کی عزت اور حیثیت کو اس کی دولت سے ماپا جا تا ہے یہاں تک کہ فرد کی قابلیت اور معیار میں بھی دولت ہی طاقت شمار ہونے لگی ہے بریں سبب حصول دولت کے لیے اکثریت غلط راہوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو چکی ہے اور جن کو مواقع میسر نہیں ہوتے وہ نفرت اور بغاوت کا شکار ہو کر جرائم کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں ۔خود بھی برباد ہوجاتے ہیں اور معاشرے کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ غربت معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے ،اس کی موجودگی میں کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ مجرموں اور باغیوں کو جنم دیتی ہے اس سے بدعنوانی اور کرپشن پھیلتی ہے اور زندگی کی اعلیٰ اقدار پامال ہوتی ہیں جب کبھی کوئی ملک اپنے اندرنی حالات سے پیدا ہونیو الے فسادات کا شکار ہوتا ہے تو اس موقع کا فائدہ دشمن ممالک اٹھاتے ہوئے اپنی تخریب کاری شروع کروا دیتے ہیں۔

یہ افراتفری انسانیت کو ہی نہیں بلکہ انسانی احساس کو بھی ختم کر دیتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا غربت کاا نسدادممکن ہے ؟ یقینا ہے مگر!اس کے انسداد کے لیے مضبوط معاشی پلاننگ اور مساوی حقوق کی تقسیم ضروری ہے لیکن وہ تب ہوگا جب حکمران طبقہ خلوص نیت سے ایسا چاہے گا یہی حل ہمیشہ لکھا گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کسی بھی دور حکومت میں نظر نہیں آتا اس لیے اب ضرورت اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کی ہے۔لیکن عوامی سطح پر یہ شعور کون بیدارکریگا ؟ کہ اگر معیار زندگی بہتر کرنا ہے تو مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کو بھی باہر نکلنا ہوگا چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں بھی ہتک محسوس نہ کرنی ہوگی جیسے مغربی ممالک میں خواتین پیکنگ وغیرہ کر لیتی ہیں مزید ریستوران، بیکریاں اور سٹوربھی چلاتی ہیں جبکہ بزرگوں کے لیے حکومت کی طرف سے وظائف مقرر ہوتے ہیں ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں سوچا جاتا؟ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جن کے 8یا10 بچے ہیں وہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کو با اثر افراد کے ہاں گروی رکھوا دیتے ہیں چونکہ ان کا بال بال قرض میںاَٹا ہوتا ہے اس لیے بھی وہ ہر قسم کی زیادتی کو سہہ جاتے ہیں کہ ذرائع آمدن کم ہونگے تو معاشی تفکرات یقیناجکڑ لیں گے ایسے میں خاموشی اور برداشت ہی مجبوراً فیصلہ ٹھہرتی ہے مگر بڑوں کی یہ بے حسی اور بے بسی بچے کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے اسے بعد ازاں اپنے خاندان سمیت معاشرے کا بھی مفید فرد نہیں رنے دیتی بریں سبب بچوں کو اس ظلم سے بچانے کے لیے فی الفور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ایسے تمام کیسسز جو عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

ان پر سخت ایکشن لیا جائے اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور کمسن بچوں کی ملازمت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں مگرایسے والدین کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے انھیں کاروباری مواقع فراہم کیے جائیںایسی قرضہ سکیمیں شروع کی جائیں جن سے آسان شرائط پر قرضہ مل سکیں اور بعد ازاں بچوں کو ملازمت دینے والوں کو مجرم گردانا جائے اور علاقہ تھانہ اس بارے مکمل آگاہی حاصل کرے کیونکہ آج کل اتنے ادارے موجود ہیں جہاں پر ایسے بچے جو والدین پر بوجھ ہیں اچھی تعلیم و تربیت حاصل کر سکتے ہیں یہ الگ بات کہ ان میں سے بھی اکثر اب گھوسٹ اور مافیا کا شکار ہیں جو انسانی جانوں کے دشمن ہیں اس لیے اس بارے وسیع پیمانے پر خلوص نیت سے منصوبہ بندیوں اور اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے ہاتھوں سے ہمارا مستقبل پھسل رہا ہے اور تہی دامنی اور اخروی خسارے کے سوا کچھ نہیں بچے گا ۔۔سوچئیے ۔۔اس سے پہلے کے اب کے پھر دیر ہو جائے کیونکہ شطرنج میں اگر وزیر اور زندگی میں اگر ضمیر مر جائے تو پھر کھیل ختم ہوجاتا ہے ۔اور کاش حکمران یہ ذہن نشین کر لیں کہ :کرسی سے تو ایک دن اترنا تھا ہی انھیں ۔۔۔جو دل میں بیٹھتے تو اترتے نہ کبھی۔

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل