آگ اور بارود سے جلتے ہوئے نیلم کے جنگلات

Forest Fire

Forest Fire

تحریر: ایم اقبال مغل
چند دن پہلے میں چند جنگلوں میں لگنے والی آگ سے متعلق تواتر سے خبریں شائع کرتا رہا اور اس میں متعدد بار میں نے محکمہ جنگلات کے عملے کو ذمہ دار ٹھہرایا اور بات بڑھنے پر عملہ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ مجھے حکومت کی ان پالیسیوں پر رحم آتا ہے جو کہ بغیر سوچے سمجھے نفع اور نقصان کا اندازہ کیے بغیر عوام پر مسلط کی جاتی ہیں۔ میں موضوع کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ہمارے اربو ںروپے کے قیمتی جنگلات پچھلے 2ماہ سے جل رہے ہیں۔ اس وقت تک حکومت نے نقصان کا اندازہ اور نقصان کرنے والوں کا محاسبہ نہیں کیا اور اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ سالانہ آگ لگنے کی وجہ سے ہمارا اربوں روپے کا نقصان کیوں ہوتا ہے۔ حکومت تو ریاست کے زرے زرے کی نگہبان ہوتی ہے۔

یہاں تو کام چلاؤ اور ٹرخاؤ پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے۔ اس وقت نیلم کے جنگلات کے علاوہ لیپہ ویلی کے درجنوں جنگل آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ روزانہ کروڑوں روپے کی لکڑی جل رہی ہے۔ حکمرانوں اور محکمہ جنگلات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ موجودہ محکمہ جنگلات جنگلوں کے تحفظ اور جنگلات کے ملکیتی رقبوں کا تحفظ کرنے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ قدرتی جنگلات سابقہ ادوار میں اور موجودہ دور میں کمائی کا آسان ذریعہ ہیں۔ ہرشخص نے اپنی غربت ختم کرنے کیلئے جنگلات کو تباہ کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف محکمہ جنگلات میں ایک سال میں ایک ار ب روپے کی کرپشن ہوتی ہے اور حکومت کو اب اس پر غور و فکر کیلئے ایک خود مختارکمیشن بنانا ہو گا جو یہ جائزہ لے کہ ریاست کے پاس جو جنگلات بچ گئے ہیں انہیں کس طرح محفوظ بنایا جائے اور جو نقصان ہو گئے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اور انہیں کیا سزا تجویز کی جائے؟ میں ریاستی حکومت سے پوچھتا ہوں کہ سامنے آئے اور قوم کو بتائے کہ ریاست کی آزادی سے لے کر اب تک ان 68سالوں میں کتنے نئے جنگل لگائے۔

Forest

Forest

حکومت 68 سالوں میں ریاست بھر کے کسی بھی کونے میں ایک بھی کامیاب جنگل دکھا دے ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم جنگلوں کو اور جنگلات کی اراضی کو تباہ کرتے رہے اور بچا نہیں سکے تو پھر یہ جنگلات کسی قومی ادارے کے سپرد کر دیئے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ فوج اس کیلئے زیادہ موزوں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت ایک ایک درخت کی حفاظت اور نئے درختوں کی آبیاری ہمیں اپنی اولادوں کی طرح کرنی ہو گی۔ آج حالت یہ ہے کہ رات کو شہر کی کسی بھی چھت پر آپ کھڑے ہو جائیں اور اپنے ارد گرد پہاڑیوں کا مشاہدہ کریں تو ہر چار سو آپ کو آگ ہی آگ نظر آئے گی۔ یہ آگ وزیراعظم سے لے کر عام شہری تک ہر ایک کو نظر آتی ہے اور سب اس کا تماشہ دیکھتے ہیں اور یہ آگ کوئی آسمانی بجلی گرنے سے نہیں لگی اور نہ ہی کسی حادثہ کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی جاتی ہے جس میں کروڑوں کی تعداد میں نئے پودے جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ پچھلے تین ہفتوں سے انڈین آرمی کی طرف سے فائر کیے گئے ہیں ۔

توب اور مارٹر کے گولوں سے دریائے نیلم کے دائیں کنارے کے جنگل میں جو آگ بھڑک اٹھی تھی وہ اتنی شدت سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اسے روکنا اب کسی کے بس میں نہیں۔ انڈین توپ خانہ جو سموک بم فائر کرتا ہے اس سے زیادہ آگ لگتی ہے اور یہ جنگلات زیادہ تر ہماری سرحدی پوسٹوں کے قریب ترین ہیں۔ یہ بھی ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میں ریاستی حکومت کے سالانہ شجرکاری پروگرام کے بھی خلاف ہوں۔ یہ شجرکاری صرف کاغذوں میں ہوتی ہے اور ہر سال فروری سے اپریل تک کے سیزن میں حکومتی اہلکار شجر کاری کے نام پر کروڑوں روپے کمائی کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ دنیا کو دکھانے کے لئے محکمہ جنگلات نے جن رقبوں پر شجر کاری کی تھی کچھ درخت تو پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک ہو گئے کچھ مال مویشیوں نے تباہ کر دئیے اور جو بچ گئے تھے مقامی لوگوں نے گھاس کو آگ لگا کر انہیں جلا ڈالا۔ اب سالانہ کروڑوں روپے کے درخت زمین پر لگانے والے کسی ایک علاقے میں بتا دیں کہ یہاں یہ 10درخت موجود ہیں جو ہم نے پچھلے سال لگائے تھے۔

میرا خیال ہے کہ ہم نہ صرف اپنے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور یہ دولت کی لالچ اور خود غرضی ہمیں خود کشی کرنے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ میں راجہ فاروق حیدر سے کہوں گا کہ خدا کیلئے محکمہ جنگلات سے ان جنگلوں کو واگذار کروائیں۔ جنگلات کے تمام ملازمین کو یہاں سے نکال کر کسی اور جگہ بھیج دیں اور جنگلات کے بچاؤ اور پھیلاؤ کیلئے الگ سے نیا ادارہ یا ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔ اس موضوع پر میں درجنوں کالم لکھ چکا ہوں لیکن کیا مجال کہ کوئی پڑھتا یا سنتا ہو سب گونگے بہرے بنے ہوتے ہیں۔ میں ریاستی حکومت سے کہوں گا کہ خدا راہ اب قانون سازی شروع کریں آپکا ہنی مون پیریڈ گزر گیا۔ جنگلات میں لگی آگ پر قابو پائیں جس جنگل میں آگ لگ جائے وہاں کے فارسٹ گارڈ ، بلاک آفیسر اور رینج آفیسر کو فوراً معطل کر کے سزا تجویز کریں۔ مقامی آبادیوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے تو اس کا تدارک ممکن ہے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ جس علاقے میں آگ لگ جاتی ہے ڈپٹی کمشنر اور محکموں کے تمام سربراہوں کو اس وقت تک ان علاقوں میں رکھا جائے جس وقت تک یہ آگ ختم نہیں ہو جاتی اور آگ لگنے والے علاقے کے ارد گرد کے دیہاتوں میں ایمرجنسی لگا کر آگ پر قابو پایا جائے۔آج کرپشن نے ہماری اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

National Benefits

National Benefits

احساس ذمہ داری ختم ہو چکی ہے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ فالتو قسم کے سیمینار نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اداروں اور ریاستی وسائل کو ہم نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے تو ہمارے پاس کس بات کا میرٹ ہے ہم کونسی گورننس دکھانے جا رہے ہیں جس ادارے کو دیکھیں تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ریاست میں جس شخص کو دیکھیں پریشان نظر آ رہا ہے وسائل لٹ رہے ہیں اور حکومت اور عوام تماشائی ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ آنکھیں کھولیں پروٹوکول کے حصار سے نکلیں اور زمین پر جا کر ہر چیز کا مشاہدہ کریں ورنہ ایسا نہ ہو کہ جنگلات میں لگی آگ پھیل کر ہماری دہلیز تک پہنچ جائے اور جنگلات کیساتھ ساتھ ہماری اولادیں بھی جل کر راکھ ہو جائیں۔

تحریر : ایم اقبال مغل
m_iqbalmughal@yahoo.com