پہلا پتھر

Life

Life

تحریر: شاہ بانو میر
اس خطہ ارض کے اصل مکیں جو بیچارے اس کے شہری ہونے کی وجہ سے اور کسی قسم کا کوئی اختیار کوئی سفارش نہ رکھنے کی پاداش میں گیس بجلی تعلیم علاج معالجے صحت زندگی امن سکون سے عاری محض سانس لینے کی سزا کی شرط پر جی رہے ہیں ۔ یہ عوام جو کئی دہائیوں سے ہر حکمران کو کہتے سن رہی ہے پھر بیان بدلتے دیکھ رہی ہے اور سہتی جا رہی ہے ۔ کتنا اور سنے گی عوام کتنا ا ور سہے گی عوام؟ریاست کے اندر مضبوط توانا ریاستیں ادارے جنہیں کوئی وفاقی حکم یا آزاد عدلیہ چیلنج نہیں کر سکتیکئی سال پہلے جب ایک مضبوط ادارے کی جانب سے کسی ذمہ دار نے کہاکہآپ دیکھ لیجئے گا کسی قیمت پر ملک کا یہ مضبوط ادارہ اپنے کسی سابقہ عہدہ دار کو عدالت تک نہیں جانے دے گا اسکو کچھ نہیں ہوگا .آج ثابت ہوگیاتحقیقات تفتیشی دائرے وسیع ہوئے پھر سمیٹے گئےاور بلآخر وہ روانہ ہو گئےشائد دلیل دینے والوں کی دلیل بہت طاقتور اس طرح سے تھی کہ وہ سیاسی رہنما جو اس ملک کے غریب ان پڑھ طبقے کی دیہاڑیوں کی ریزگاری جمع کر کے کھربوں سےمیں تبدیل کر کے ان کے منہ کا نوالہ چھیننے میں مہارت رکھتے ہیں اور سب سامنے ثابت ہونے کے بعد سزا نہیں جزا دی جاتی ہے مکمل تحفظ کے ساتھ وہ پردیس سدھار جاتے ہیں ۔ پورے صدارتی پروٹوکول کے ساتھ .

بھوک و افلاس کی شکار عوام میں اتنی طاقتور سکت نہیں کہ ان کے جہاز کو زمین پے اتار کر ان سے پائی پائی کا حساب لے کر ان کو سر عام تختہ دار پے لٹکا سکے کہ پھر کسی غاصب چور کو ہمت نہ ہو کسی غریب کے منہ کا نوالی چھیننے کیمگروطن عزیز کا باوا ہی نرالا ہےہر ادارے دوسرے سے مقابلہ کر کے اپنے ملک کو نہیں اس کے نظام کو نہیں بلکہ اپنے ادارے کو سر بلند رکھنا چاہتا ہے ۔اسی لئے ان کا کہنا تھا کہجن کی ملوں پر اربوں کے قرضے معاف کروائے گئے جو زکوة کی مد میں اربوں روپے غریبوں کے کھا گئے وہ دیدہ دلیری سے اسی ملک کے حکمران شاہی کہلائے جا رہے توپھر ان کے سامنے ایک محب وطن سپاہی کو جس پر اتنے طویل دورانیے میں کوئی ایک پیسہ کرپشن کا ثابت نہیں کر سکااسکو سیاسی عتاب کے نام پر ملزم سے مجرم ثابت کرنے کیلئے کیوں عدالت لے جایا جائے ؟ یہ دلیل ہر لحاظ سے معنی خیز تھی اور با اثر بھیجب آپریشن ایک طرف بیرونی دشمنوں کو ٹھکانے لگا کر پیچھے دھکیلتے ہوئے ضرب عضب کا کامیاب اختتام قریب ہے تو دوسری جانب کراچی میں جاری جرائم پیسہ افراد کی پکڑ دھکڑ اوردہشت گردوں کے ساتھ سیاسی قائدین کے قریبی تعلقات منظرعام پر آگئے .

حاکم ہی قاتل نکلےعوامنامی جنس سے زندگی کی ہر ضرورت چھین لی گئی اور اسے فاقوں میں مبتلا کر کے اپنی “” شاندار قسمت “” اور “” ان کو آزمائشی لوگ “” قرار دینے والوں کے سامنے کاش ان کے دوہرے معیار اور دوغلانہ اندازسیاست کو کوئی ان میں سے اٹھے اور چیلنج کرے جھوٹ جبر کی یہ سیاسی فضا کب تک؟نجانے کیوں دور بہت دور سے دکھائی دے رہا ہے کہوہ عام انسان اسی اجتماع میں کھولتے ہوئے کون کے ساتھ کھڑا ہے جس کی کل بچی سیاسی پروٹوکول کی نذر ہوئی اور آج دوسری بچی بھوک سے قریب المرگ ہے اسلامی رہنما خود زمین پے سوتے تھے اور عوام کی فکر کرتے تھے

POETRY

POETRY

یہ کیسے حکمران ہیں جو غریب عوام کے منہ کا نوالہ بھی کھا جاتے ہیں اور پھر ہوس پوری نہیں ہوتی؟ جس دن اس بے بس انسان نے اپنی مٹھی میں دبا ہوا پتھر بھرے مجمعے مین اس طالم سفاک سیاسی رہنما کی طرف اچھا دیا جو اس عوام کی ہر بد نصیبی کا اصل ذمہ دار ہے وہی دن ہوگا شعور کے جاگنے کا عوامی انقلاب کا استحصال سے باہر نکلنے کا ایک پتھر اچھالے تو اندھی تقلید کی ماری یہ قوم بھی اپنی بند مٹھیاں کھول دے گی اور پھر حشر برپا کر دے گی یہ عوام. ہر جگہہ ان کا پیچھا کریں اور سنگ باری کیلئے پتھر ہاتھ میں رکھیں . تب آئے گا عوامی انقلاب جو اس ملک کی اب اولین ضرورت ہے . خود کو بچانے کیلئے ہمیشہ ان لوگوں نے سودے بازیں کیں یہ نظام اب نہیں چلنے دیا جائے گا جاگنا ہوگا اٹھنا ہوگا آگے بڑھنا ہوگا .

اقتدار کی رسہ کشی کیلئے اس مک مکاؤ میں ہمیشہ مزید پستی کی جانب اسی عوام کو دھکیلا جاتا ہے ہر بار یہی تماشہ ہر بار اپنے تخت کو بچانے کیلئےعوامی استحصال کیوں؟ عوام کو دن رات مضطرب کر کے بد گمان کر کے ان کے وقت کا ضیاع کر کے شواہد کے ساتھ مجرم نامزد کیا جاتا ہے پھر ہر بار وہ ملزم شاہانہ انداز میں ملک سے باعزت رخصت کیسے ہو جاتا ہے؟ بیوقوف بننے کو یہ عوام ہی رہ گئی ہے ؟ کب تک آپ سب لوگ بے حس و حرکت پے درپے ایسے منافقانہ طرز سیاست کو برداشت کریں گے؟ اٹھیےاب کی بار اگر سامنے کوئی منافق جھوٹا کاروباری اہداف رکھتا ہوا سیاسی رہنما بڑھ چڑھ کر بولتا دکھائی دے تو کھول لیں مٹھی اور اس مین موجود پہلا پتھر آپ اٹھا لیں تو آپ قائم کر سکیں گے وہ نظام جس سے آپ کے بچے بیچے نہیں جائیں گے؟ روٹی سب کو ملے گی شرط صرف یہ ہے کہ پہلا پتھر آپ ماریں اس بوسیدہ ناقص سڑے گلے نظام کے کسی بھی فرستادہ کو

Shahbano Mir Academy

Shahbano Mir Academy

تحریر: شاہ بانو میر