کیا ہم معبودان باطل کی پیروی میں مصروف ہیں؟

Allah

Allah

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
عزت و ذلت، عروج و زوال اور شرف و منزلت سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے بلندیاں عطا فرماتا ہے، جس کو چاہتا ہے دنیامیں ہی کامیابیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنا پسندیدہ اور محبوب بنا لیتا ہے۔ انسان کو اختیاردیا گیا ہے کہ چاہے تو وہ قدر و منزلت حاصل کر ے اور چاہے تو ذلیل و خوار ہو۔ واقعہ معراج میں نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دودھ اور شراب کے برتن میں سے کسی ایک کو لینے کے لیے کہا گیا (مسلم: باب ایمان: واقعہ معراج)۔ نووی کہتے ہیں “اس روایت میں اختصار ہے اور مراد یہ ہے کہ جبریل نے آپ کو اختیار دیا تھا کہ ان دونوں برتنوں میں سے جس کو چاہیں اختیار کریں، آپ نے دودھ پسند کیا۔

دودھ اور شراب تمثیل ہے پاکی اور ناپاکی ، معروف و منکر کی یعنی انسان جس چیز کو اختیار کرے گا وہی اس کے مقدر میں لکھ دی جائے گی اور پھر قدر و منزلت اور ذلت وپستی بھی اسی درجہ اس کو حاصل ہوگی۔ واقعہ کی تفصیل قرآن حکیم میں بھی ملتی ہے۔ کہا کہ “پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا” (بنی اسرائیل :١)۔ مزید فرمایا: “اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدر المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھاجہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔اس وقت سد رہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی، اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں”(النَّجم:١٣تا١٨)۔ متذکرہ آیات میں واقعہ معراج کا تذکرہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک عظیم واقعہ تھا جو اس نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ظہور فرمایا۔ قرآن مجید محمد ۖ کے مسجد حرام (یعنی بیت اللہ ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ تفصیل قرآن میں نہیں ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپۖ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک براق پر لے گئے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

وہاں آپ ۖنے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ ۖکو عالم بالا کی طرف لے چلے ،وہاں طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ ۖکی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ ۖانتہائی بلندیو ں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ ۖکو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ ۖ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۖ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ ۖنے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔

اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں ؟ اور آیا حضور بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ ۖکو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سبحٰنَ الّذِی اَسریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کااس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا وہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔

پھر یہ الفاظ بھی کہ “ایک رات اپنے بندے کو لے گیا” کے معنی ہی یہ ہیں کہ یہ ایک آسمانی سفر تھا ۔ساتھ ہی ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ بھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا۔ دوسری طرف مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو تمام عیوب سے پاک ہے۔اس کی ہر بات سچی ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی تحریف ممکن نہیں۔ پھر یہ بھی کہ محمد ۖاللہ کے بندے اور آخری رسول ہیں۔آپۖ انسانوں میں سب سے معتبر شخصیت ہیں۔ لہذا قرآن کی ہر بات قابل یقین اور تمام احادیث قابل تقلید ہیں۔اسلام میں تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جو شخص کسی رسول پر ایمان نہ لائے گا وہ کافر ہوگا خواہ وہ باقی رسولوں کو مانتا ہو۔ لہذا اگر ہم جاننا چاہیں کہ آپۖ میں اور دوسرے پیغمبروں میں کیا فرق ہے ؟ تو اس کو ہم تین باتوں سے سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں: ١) آپ ۖ تاقیامت نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔٢) دیگر انبیاء کی تعلیمات اپنی خالص صورت میں محفوظ نہیں ہیں۔٣) دیگر انبیاء کی تعلیمات مکمل نہیں تھیں، احکام و قوانین میں ترمیم و اضافہ ہوتا رہا، لیکن آپۖ کو ایسی تعلیمات دی گئیں جو ہر حیثیت سے مکمل ہیں اور آپۖ کے بعد تمام انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔

Quran

Quran

اسی طرح قرآن حکیم کے تعلق سے بھی چند باتوں کا جان لینا ضروری ہے۔١) صحفِ ابراہیم اب دنیا میں موجود نہیں، رہی تورات، زبور، انجیل تو وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود ہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ ان سب کتابوں میں لوگوں نے خدا کے کلام کو بدل ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اور دیگر کتابوں میں بہت نمایاں فرق ہو گیا ہے۔٢) دیگر کتابوں کے اصلی نسخے گم ہو گئے اور ترجمے رہ گئے ، قرآن آج بھی اپنے اصل الفاظ میں موجود ہے ،ساتھ ہی اس میں ایک حرف بلکہ ایک شوشہ میں بھی تغیر نہیں ہوا۔ ٣) قرآن میں خالص کلام الٰہی ملتا ہے ، تفسیر ،حدیث، فقہ، سیرت رسول، سیرت صحابہ اور تاریخ اسلام سب قرآن سے بالکل الگ ہیں۔٤) قرآن کے متعلق زبردست تاریخی شہادتیں موجود ہیں، آیتوں تک کے متعلق معلوم ہے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازل ہوئی۔٥) پچھلی کتابیں جن زبانوں میں نازل ہوئی تھیں وہ ایک مدت سے مردہ ہو چکی ہیں، اب کہیں بھی ان کے بولنے والے باقی نہیں رہے۔٦) دنیا کی مختلف قوموں کی کتابوں میں کسی خاص قوم کو مخاطب کیا گیا ہے ،یہ کتابیں ایک خاص زمانے کے لیے تھیں، قرآن کے احکامات ہر زمانے میں ہر جگہ کے لیے ہیں۔٧) قرآن میں جتنی خوبیاں پچھلی کتابوں میں الگ الگ تھیں وہ سب اس میں جمع کردی گئی ہیں اور جو خوبیاں پچھلی کتابوں سے چھوٹ گئی تھیں وہ بھی اس کتاب میں آگئی ہیں۔ لہذاقرآن پر ایمان اس حیثیت سے ہونا چاہیے کہ یہ خدا کا خالص کلام ہے،سراسر حق ہے، اس کا ہر لفظ محفوظ ہے، اس کی ہر بات سچی ہے، اس کے ہر حکم کی پیروی فرض ہے اور وہ تمام باتیں قابل رد ہیں جو قرآن کے خلاف ہوں۔ لہذا قرآن و حدیث میں تذکرہ معراج ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے اور جو شخص بھی اس میں تذبذب کا شکار ہوا، اس کا ایمان جاتا رہے گا۔

وہیں یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ انبیاء کرام کے ذریعہ مختلف امتوں کو آزمائے۔ پس یہ واقعہ بھی اسی سنت کا ایک حصہ ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ امت ِ محمدی کو آزمانا چاہتا ہے۔ نہ صرف یہ آزمائش ہے بلکہ اللہ کی قدرت،جنت و دوزخ کے وجود،جبریل امین کی حیثیت، نماز کی فرضیت اور ان جیسے دیگر معاملات سے بھی اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کے نبیۖ کو واقف کیا جائے۔لیکن واقعہ کا پیش آنا اور نبیۖ کے ذریعہ بیان کیا جانا ، ان لوگوں کے لیے پریشانی کاسبب بن گیا جن کی آنکھیں اور جن کے دل نبیۖ کی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر ہونے اوراس کی قدرت کو بیان کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔

ساتھ ہی اس واقعہ سے نہ صرف نبیۖ کو بلکہ انسانوں کو بھی اللہ تعالیٰ وہ علم بہم پہنچانا چاہتا ہے جس کے ذریعہ اللہ کی نعمتیں مکمل طور پرواضح ہو جائیں ساتھ ہی انسانوں کو اس عظیم خسارے سے بچالیا جائے جس کا مشاہدہ محمد ۖنے کیا ہے۔ یہ واقعہ آپ کی صداقت کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ آپ ۖکے ذریعہ بتائی گئی ہر بات سچی ہے۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قول و عمل سے شہادت دیں کہ واقعی ہم نہ صرف محمدۖ کی ہربات کو سچ مانتے ہیںبلکہ ہمار اشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں “(البقرہ:٣)۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اعمال صالحہ کے نتیجہ میں شرف و منزلت سے ہمکنار کرے۔ ساتھ ہی اس ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھے جو معبودانِ باطل کی پیروی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم معبودانِ باطل کی پیروی میں مصروف ہیں؟اور یہ بھی کہ کس حد تک اور کیوں؟

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com