بھول گئے

دکھ کے موسم، سکھ کا ناتا بھول گئے
جانے والے گھر کا رستہ بھول گئے

سرحد کے اس پار دِکھائی دیتے لوگ
دیواروں پہ دِیپ جلانا بھول گئے

ہم بھی کیسے لوگ ہیں ماضی سے لِپٹے
مستقبل اور حال کا چہرہ بھول گئے

مذہب اور عقائد کے اِس دھندے میں
اِنساں کو اِنسان سمجھنا بھول گئے

کِس نے میرے بچوں کو بہکایا ہے
کاغذ، قلم، دوات اور بستہ بھول گئے

لِپٹی ہیں دہلیز سے آنکھیں مائوں کی
راج دلارے واپس آنا بھول گئے

اشرف المخلوق کے درجے پر فائز
اِنسانوں کی مانند رہنا بھول گئے

مظلوموں کا خون دہائی دیتا ہے
منصف اپنا فرض نِبھانا بھول گئے

جب سے دنیا داری کو اپنایا ہے
ہم بھی ساحل اشک بہانا بھول گئے

Sad Girl

Sad Girl

تحریر : ساحل منیر