کشمیر فری آرگنائزیشن برلن کی جانب سے عفت فاطمہ کی ڈاکو منٹری ‘خون پکارتا ہے’ کی نمائش کا اہتمام

Iffat's Documentry, Khoon Pukarta Hay

Iffat’s Documentry, Khoon Pukarta Hay

جرمنی (انجم بلوچستانی) 8 اگست 2016ء بروز ہفتہ، شام 6 بجے، فری کشمیر آرگنائزیشن FKO برلن، جرمنی (رجسٹرڈ) کی جانب سے Babylon سینما میں سرینگر میں مقیم نامور ڈاکو مینٹری پروڈیوسر عفت فاطمہ کی، لاپتہ کشمیریوں کے موضوع پر بنائے جانے والی فیچر فلم ڈاکو مینٹری ”خون پکارتا ہے” کی نمائش کا انتظام کیا گیا۔ یہ فلم کشمیری زبان میں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ بنائی گئی ہے اور اسمیں کام کرنے والے افراد، جن میں اکثریت خواتین کی ہے،مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ہیں۔مرکزی کردار دو خواتین اور دو بچوں کے ہیں،جنکے گرد اس فلم کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔انکے علاوہ بے شمار مرد و خواتین نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔فلم کا آغازعفت فاطمہ کے کشتی پر بیٹھ کر جھیل کے سفر سے ہوتا ہے،جس کے دوران وہ مرکزی کرداروں اور دیگر افراد سے ملاقات کے بعد انکے تاثرات عکس بند کرتی ہیں ۔فلم میںشادی کی تقریب کے مناظر بھی موجود ہیں، جس میں روایتی رقص ،گانے اور رسوم ورواج کی عکاسی کی گئی ہے۔فلم میں اداکاروں یا فنکاروں کے بجائے عام افراد نے ہی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں،جو اپنی ناپختگی اور تجربہ کی کمی کے باوجود ناظرین پر اچھا تاثر چھوڑتے ہیں،جس سے فلم حقیقت سے قریب نظر آتی ہے۔

تیکنیکل لائٹس، مائکس اور دیگر آلات کی کمی محسوس ہوتی ہے ،جو فلم کے مناظر کو مزیدروشن کرنے اور بہتر آواز مہیا کرنے میں مد دے سکتے تھے۔لگتا ہے کہ پروڈیوسر کے لئے دوسرے دن کا سفر ممکن نہ تھا،تاکہ یہ مناظر دن کی روشنی میں فلمائے جا سکیں۔مجموعی طور پر یہ وادی کشمیر میںگم شدہ افراد کے موضوع پر بننے والی غالباً پہلی فیچر فلم ہے،جس کے لئے عفت فاطمہ داد و تحسین کی مستحق ہیں۔انہوں نے یہ فلم بنا کر نہ صرف عالمی دنیا کو مسئلہ کشمیر کے ایک اہم نکتہ سے روشناس کرایا ہے، بلکہ عام کشمیریوں کو کھل کر اپنے جذبات کے اظہار کا موقعہ دیا ہے،جو اس سے پہلے کسی نے اس طرح پیش نہیں کئے تھے۔یہ فلم کئی سال قبل بننا شروع ہوئی تھی اور اسکی ریلیز تک کئی سال بیت گئے،لہٰذا اس میں وادی جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال کا کوئی تذکرہ نہیں۔اسلئے اس میں برہان وانی شہید اور دیگر شہداء کی جدوجہد کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔یوں بھی یہ صرف اپنے موضوع،یعنی گم شدہ کشمیریوں کے ذکر تک محدود ہے اور اسے بہر حال عفت فاطمہ کی ایک کامیاب کوشش کہا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ انکی اگلی فلم تحریک آزادی کشمیر کے ایک اور اہم نکتہ،یعنی”عملی جدوجہد آزدی کے اتار چڑھائو ”پر ہو گی۔

یہ فلم انڈیا میں ممنوع ہے اور وہاں سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اسے عالمی دنیا میں زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے،جس کیلئے وہ ہر قسم کی مدد اور ہمت افزائی کی مستحق ہیں۔

تقریب کے شروع میںسینما منیجر نے ا س فیچر فلم اور پروڈیوسر کا تعارف کرایا۔صدرفری کشمیر آرگنائزیشن ،برلن محمد صدیق کیانی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔پروڈکشن ٹیم کے Maxاورفلم پروڈیوسر عفت فاطمہ نے فلم کی ضرورت، اہمیت،تیاری کے مراحل اور نمائش کے انتظامات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے فلم بنانے سے پہلے،اس کے دوران اور اسکے بعد مختلف مشکلات، رکاوٹوںاور تکالیف کا احاطہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ انکی فلم تمام رکاوٹوں کے باوجود عوام میں پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔انکی کوشش ہے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود اس فلم کو مختلف عالمی شہروں تک لے جا سکیں،تاکہ عالمی دنیا کو وادی کشمیر پر قابض انڈین افواج کے جرائم اور مظلوم کشمیریوں کے مسائل سے آگاہی ہو سکے۔

فلم کے بعد سوال و جواب کی ایک نشست منعقد ہوئی،جسمیںفلم کے معاون،برلن ،جرمنی کے ماکس نے، جو سری نگر یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالبعلم ہیں، فلم پروڈیوسر عفت فاطمہ کے ساتھ مل کر لوگوں کے سوالات کے جوابات دئے۔اس نشست کے دوران FKO کے صدر صدیق کیانی؛ فلم پروڈیوسر عفت فاطمہ؛جنرل سکریٹری منہاج القرآن انٹرنیشنل ،MQIبرلن محمد ارشاد؛ مقبوضہ کشمیر کے کشمیری ایکٹیوسٹ راجہ ایم انور اورعالمی چیرمین کشمیر فورم انٹرنیشنلKFIامریکہ، یورپ، ایشیا،چیف کوآرڈینیٹرپاکستان عوامی تحریکPAT یورپ ، چیرمین ایشین جرمن رفاہی سو سائٹیADWGجرمنی،مشہور و معروف ایشین یورپین صحافی و شاعر،محمد شکیل چغتائی نے مختصر خطا بات کئے۔صدیق کیانی نے عفت فاطمہ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس ڈاکومینٹری کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کیا اور اس سلسلے میں ہرقسم کے تعاون کا وعدہ کیا۔انہوں نے کشمیر کاز کیلئے دیگر تنظیمات کا ساتھ دینے کا عند یہ بھی ظاہر کیا۔عفت فاطمہ نے اس ڈاکومینٹری کی کہانی، پروڈکشن ٹیم، مرکزی کرداروں اور موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لوگوں کو سوالات کی دعوت دی۔شرکاء نے فلم کی نمائش پر خوشی کا اظہارکیا۔ اس فلم میں خواتین کی اکثریت،کہانی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رائے زنی کی،مفید مشورے دئے اورکئی سوالات پوچھے،جن کاعفت فاطمہ نے تسلی بخش اور سیر حاصل جواب دیا۔

محمد ارشاد نے پروڈکشن ٹیم اور عفت فاطمہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس فلم کو عالمی دنیا میںزیادہ سے زیادہ روشناس کرانے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر انڈین افواج کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اس ظلم کو روکنے کی اپیل کی۔ راجہ ایم انور نے نے وادی جموں و کشمیر پر قابض انڈین افواج کے حالیہ بہیمانہ ظلم و ستم،ریاستی دہشت گردی،اغوا،گرفتاریوں اورکشمیریوں کے قتل عام پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔انہوں نے عفت فاطمہ کی فیچر فلم کی تعریف کرتے ہوئے اس تقریب میںتحریک آزادی کشمیر کے حالیہ شہداء کے ذکر کی کمی کو محسوس کیا اور اسکی نشاندہی کی۔انہوں نے اتحاد کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے برلن اور جرمنی میںٍٍٍٍٍکشمیرکاز کیلئے سرگرم عمل تنظیمات کو مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا۔

شکیل چغتائی نے KFI، PATیورپ اورADWGکی جانب سے صدیق کیانی اور KFOکی انتظامیہ کی دعوت پرا ن کا شکریہ ادا کیا، اس تقریب کے انعقاد پر ان کو مبارکباد دی اوراس ڈاکومینٹری کو عفت فاطمہ کی فلمی زندگی کا ایک اہم موڑ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ”عفت فاطمہ نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری گم شدہ افرادپر فلم بنا کر اس موضوع سے پوراانصاف کیا ہے۔ ”خون پکارتا ہے”عفت کی ایک کامیاب اور بے مثال کاوش ہے،جو اس موضوع پر پہلی فیچر فلم ہونے کے ناطے قابل ستائش و تحسین ہے۔تاہم ایک نکتہ پر توجہ دلانا ضروری ہے ،وہ یہ کہ اس فلم کو مکمل ہو کر نمائش کیلئے پیش جانے میں کئی سال گزر گئے ہیں اورکشمیر کی موجودہ صورت حال بہت تبدیل ہو چکی ہے ۔فلم میں پیش کردہ خیالات بھی پرانے ہو چکے ہیں۔ پروڈکشن ٹیم کو اس فلم کی نمائش کے موقعہ پر لوگوں کونہ صرف مقبوضہ کشمیر میں انڈین افواج کی حالیہ بربریت ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،حزب المجاہدین کے نوجوان رہنما شہیدبرہان وانی ،دیگر شہدائ،زخمیوں و نظربند کشمیری رہنمائوں کا ذکر کرنا چاہئے ،بلکہ کشمیریوں کو گھروں اور میدان سے جبریہ اٹھاکر گم کرنے والے بھارتی سورمائوں کی بزدلانہ کاروائیوں کو بھی اجاگر کرنا چاہئے، کیونکہ یہ گم شدگی ڈاکومنیڑی میں پیش کی گئی گم شدگیوں سے کہیںزیادہ تکلیف دہ ہے۔”انہوں نے اس فیچر فلم کی دنیا بھر میں نمائش پر زور دیا اور اس سلسلے میںہر پلیٹ فارم پرعفت فاطمہ اور انکی ٹیم سے کشمیر فورم انٹرنیشنل کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

سوال جواب کی نشست کے دورانKFOانتظامیہ کے ایک ذمہ دار فرد نے غیر ذمہ دارانہ انداز میں پاکستانی و کشمیری سوال کنندگان کے
تبصروں پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں صرف سوال کرنے کا مشورہ دیا۔جسے سوال کنندگان نے بد تہذیبی اور بد اخلاقی قرار دیتے ہوئے انہیں خاموش کردیا۔یاد رہے کہ نشست میںکئی جرمن و دیگر سوال کنندگان کو بار بار سوالات کا موقعہ ملا،جبکہ اعتراض شدگان کو صرف ایک سوال کی اجازت ملی۔امید ہے کہ KFO کی انتظامیہ آئندہ ان باتوں کا دھیان رکھے گی ،تاکہ تقریب کے دوران کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔
نشست کے بعد کوئٹہ، بلوچستان کے نامور فنکار شکیل چغتائی نے،جو مشرقی جرمنی کی حکومت کے وظیفہ پر تھیٹر سائنس کی اعلیٰ تعلیم کیلئے جرمنی آنے سے قبل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس ،اسلام آ باد میں پروگرام ایگزیکٹئو(اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کی حیثیت سے فلم، ٹی وی وتھیٹر سے منسلک تھے ،ڈاکومینٹری پروڈیوسر،سری نگر کی عفت فاطمہ اور پروڈکشن ٹیم کی معاون،سری نگر کی عظمےٰ فلک ،جو دہلی،انڈیا کی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ہیں،سے خصوصی ملاقات میںفلم کے مقاصدکے حصول، تنقیدی نکات،اختلافات اور فلم کی نشرو اشاعت کے بارے میںگفت و شنید کی۔ چغتائی صاحب نے فلم میںلائٹنگ اور آواز کی ڈبنگ کو کمزور قرار دیتے ہوئے بہتر سسٹم کے استعمال کا مشورہ دیا۔ عفت نے پروڈکشن کی مشکلات، اوقات کار اور اجازت کے حوالے سے تکنیکی کمی بیشی کی وضاحت کی اور تمام رکاوٹوں کے باجوداس فیچر فلم کے مکمل ہونے،اسکی نمائش اور مقاصد کے صول پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے چغتائی صاحب سے رابطہ میں رہنے کا وعدہ کیا۔

شکیل چغتائی نے عظمےٰ فلک سے بات کرتے ہو ئے کشمیری و پاکستانی تنظیمات میں ایکدوسرے اور آپس میں اتحاد کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا ،جس سے کشمیرکاز کو نقصان پہنچتا ہے۔عظمٰے فلک نے اس نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ”کشمیر کاز کیلئے کام کرنے والی اکثر تنظیمات بھی پاکستانی جماعتوں کی طرح مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہیں،جو اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔” انہوں نے کہا کہ”میں کسی تنظیم سے منسلک ہوئے بغیر کشمیریوں کے حقوق کیلئے کوشاں ہوںاور یونیورسٹی میں میرے ہم خیالوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔”

شکیل چغتائی کے اس سوال پرکہ” فلم کے ایک کردار نے لیاقت علی خان کی جس دہشت گردی کا ذکر کیا ہے،کیا یہ ١٩٤٧ ء میںکشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کرنے والے پاکستانی مجاہدین کی طرف کوئی اشارہ ہے؟کیا یہ پاکستان کے پہلے منتخب، ہر دل عزیز،سادہ مزاج ، درویش صفت اور زیرک وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے دور کاحوالہ ہے؟” عظمےٰ نے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے یہ اہم سوال عفت فاطمہ سے دریافت کرنے کی درخواست کی،جو عفت اور دیگر شرکاء کی مسلسل بات چیت کے باعث ادھورا رہ گیااور جواب طلب ہے۔

تقریب کے بعد حسب معمول KFOنے سبزی بریانی اور رائتہ کا اہتمام کیا تھا۔ڈاکومینٹری شو کے مکمل پروگرام کیلئے صرف دس ایورو داخلہ فیس رکھی گئی تھی اورشو سے قبل تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے۔ جبکہKFO نے پریس نمائندوں اور چند معززز مہمانوں کو فری پاس دئے۔ پریس کوریج کیلئے جیوٹی وی کے عرفان آفتاب؛نمائندہ ڈچے ویلے (صدائے جرمنی)،کلیم چیمہ ،پاکبان انٹرنیشنل کے سربراہ ظہور احمداور ایشین پیپلز نیوز ایجنسی انٹرنیشنل کے ایڈیٹر انچیف پرنس انجم بلوچستانی موجود تھے۔جن کے علاوہ کیانی صاحب کے صاحبزادے حامد کیانی نے فوٹوگرافی کے فرائض سر انجام دئے۔