آزادی اظہار یا اسلام کے خلاف یلغار

Protest

Protest

تحریر : ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی
امریکی تنظیموں فریڈم ڈیفنس انیشی ایٹو اور سٹاپ اسلام کی طرف سے آزادی اظہار کے نام پر بانی اسلام حضرت محمد مصطفےٰ کی گستاخیوں کا ایک نیا منظم سلسلہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش ، ان کے مقابلوں اور ان پر انعامات کی شکل میں شروع کردیا گیاہے۔ مغربی آزادی اظہار کا مطلب اسلام کے خلاف زبان درازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔حلانکہ اسلام سے بڑھ کر کوئی آزادی اظہار کا علمبردار نہیں ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” یہ حوصلہ اسلام ہی نے غلامی اور ذلت کی زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو دیا ہے۔ اسلام نے اس آزادی کی حدود بھی بیان کی ہیں ۔ سرورکائنات حضرت محمد ۖ نے جو آداب زبان انسانیت کو عطا کیے ہیں۔ وہ آپۖ کا حصہ ہے آپ ۖنے چودہ صدیوں سے زائد زمانہ قبل آزادی اظہار کی آواز بلند کی ،مغربی دنیا کو تو 1689 کو بل آف رائٹس ملا اور اس کے سو سال بعد 1789 میں فرانسیسی انقلاب کے وقت آزادی اظہار کا ایک اور بل پاس ہوا۔ جس کے آرٹیکل 11 کے مطابق ہر شہری بول کر اور لکھ کراپنی رائے کا اظہار کر سکتاہے ا ور اسے پرنٹ کر سکتا ہے ۔ لیکن اس آزادی کو کسی بھی قانون کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا ہے۔

آزادی اظہار کی اپنی قیود ہیں ایک مشہورقانونی مدبر جس اولیور وینڈل ہو مر (امریکی چیف جسٹس) نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے (شیزنک بمقابلہ امریکی حکومت ) میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا The most stringent protection of free speech would not protect a man in falsely shouting fire in a theatre and causing a panic. ”آزادی اظہار کا سب سے مضبوط تحفظ بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص کسی تھیٹر اورعوامی مقام میں اشتعال انگیزی سے غلط چلّائے اور افراتفری پھیلائے ” اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا Freedom of expression used for common purpose in protected but this freedom when used to humiliate others values and beliefs is not protected ”اس اظہار خیال کی آزادی ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ہو لیکن وہ آزادی اظہار جس سے دوسروں کے لطیف جذبات مجروح ہوں یا ان کے اقدار اور ایمان کو ٹھیس پہنچے ان کو یہ قانون کوئی دفاع مہیا نہیں کرتا” اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 19 بھی آزادی اظہار کے جائز استعمال کی تلقین کرتا ہے مگرآج یورپ(Freedom of Speech) آزادی اظہار کے نام پر آگ سے کھیل رہا ہے یورپ نے تحریری اور تصویری انداز میں ایسی ذات گرامی کی توہین شروع کر رکھی ہے جن سے استہزا ء کرنے والے کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کا اعلان رب ذوالجلال نے کتاب لاریب میں کر رکھا ہے۔ جس موڑ پر آج یورپ آ کھڑا ہوا ہے وہ قدرت کی تعزیر سے نہیں بچ سکے گا ۔وہ اپنے قانون آزادی اظہار میں پھنس کر خود ہی تقسیم ہو جائے گا۔ شاعر مشرق نے کافی مدت پہلے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا ۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

آج مغرب کی طرف سے سرکاری سطح پر جو دل آزاری کی مہم چلائی جارہی ہے اس کا نتیجہ بڑا بھیانک نکلے گا۔ اسلامی دنیا بہت کچھ برداشت کر رہی ہے مگر ایک مقام ایسا ہے کہ وہاں پہنچ کر برداشت کے پیمانے دم توڑ جاتے ہیں۔ عدم برداشت کی حد ود کا آغاز ہو جاتا ہے اگر یورپ کی طرف سے ہمارے تن بدن کو لگائی گئی آگ پر ہمارا ٹرپنا بھی اس کے نزدیک عدم برداشت کا رجحان ہے تو اس کی آتش فشانی کون سے پر امن معاشرے کا زیور ہے یورپ کی طرف سے مسلسل توہین رسالت کا ارتکاب دو ارب مسلمانوں کو نذر آتش کرنے کے مترادف ہے۔ چارلی ہیبڈو میگزین تو گذشتہ چالیس سال سے یہ آگ بھڑکا رہاہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے تڑپنے کو عدم برداشت کہا جارہا ہے مگر اپنی آگ لگانے کے عمل کو اپنا حق اور اپنی آزادی قرار دیا جا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پیرس حملے کے ذمہ دار وہی تھے جو اس کا نشانہ بنے ۔اس حقیقت کا اعتراف چارلی ہیبڈو میگزین کے بانی رکن ہینری روسیل نے ٹیلی گراف کو انٹر ویو دیتے ہوئے کیا اوراس نے کہا :”چارلی ہیبڈو میگزین کا ایڈیٹرسٹیفن شاربونیر ایک ضدی ااور کوڑھ مغز انسان تھا جسے میں نے سمجھایا تھا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ایک سنگین مسئلہ ہے تم اس سے باز آ جاؤ لیکن وہ باز نہ آیا لہذا اپنی اور اپنے عملہ کی موت کا وہ خود ذمہ دار ہے ”

Charlie Hebdo

Charlie Hebdo

اگر یورپ کے آزادی اظہار کے نعرے میں دوغلا پن نہیں ہے تو اسے ہینری روسیل کی رائے کا احترام کرتے ہوئے پیرس حملہ آوروں کے خلاف احتجاج نہیں کر نا چاہیئے تھا نیز پوپ فرانسس نے اس پس منظر میں اپنے ایک دوست کے لحاظ سے کہا : we are good friend if (he) says a curse word against my mother , he can expect a punch ”ہم اچھے دوست ہیں اگر یہ میری ماں کے بارے میں کو ئی نازیبا بات کہتا ہے تو یہ میرے جوابی مکّے کی توقع بھی رکھے ” پوپ نے توہین رسالت کے جرم کو اگرچہ ماں کی گالی کے مترادف قرار دینے میں غلطی کی ہے کیونکہ رسول اللہۖ کی ناموس کروڑ ہا ماؤں سے کہیں بلند وبالا ہے مگر پوپ نے توہین کے رد عمل میں ہونے والی کاروائی کو فطری قرار دیا ہے ۔یورپ کو اس آزادی اظہار کا بھی احترام کر نا چاہیئے۔ ادھر پیرس میں واصل جہنم ہونے والے گستاخانہ خاکے بنانے والوں کے حق میں جو ملین مارچ ہوا اور چالیس ممالک کے حکمرانوں نے شرکت کی جو اس صدی کا سب سے بڑا اجتماعِ منافقین تھا اس میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت خود اپنے اپنے ممالک میں آزادی اظہارکی دشمن ہے۔اس کا اعتراف فرانسیسی صحافتی تنظیم Reporters with out borders نے بھی کیا۔اس مارچ میں یہ نعرہ بار بار لگایا جارہا تھا جے سوئس چارلی جسکا معنی بنتاہے میں چارلی ہوں۔اس میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو بھی اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف چمپین کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیںاور فلسطینیوں کی آزادی کو کچل رہا ہے ۔وہ اس مارچ میں رسول اکرم ۖ کے گستاخانہ خاکوں کوآزادی اظہار قرار دے رہا تھا۔ حالانکہ ابھی چند مہینے ہی گذرے ہیں جب برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائم نے اسی وزیر اعظم کا ایک ایسا کارٹون چھاپا جس میں اس کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے دکھائے گئے تو اس پر اسرائیل نے احتجاج کیا اور سنڈے ٹائم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جو اس نے مانگی۔

فرانس میں حال ہی میں مزاحیہ اداکار دیو دونی ایمبالا کو گرفتار کرلیا گیا ہے اس کا جرم کیا ہے ؟ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ایک لطیفہ کہا ہے جس سے میگزین چارلی ہیبڈو کے دفترپر فائرنگ کر کے ایڈیٹر اور چار گستاخانہ خاکے بنانے والوں سمیت 12 افراد کو ہلاک کرنے والے سعید کواچی اور شریف کواچی سے اظہار ہمدردی کا پہلو عیاں ہو رہا تھا سوچنے کی بات یہ ہے کہ فرانس کا آزادی اظہار کا قانون معاذ اللہ اگر چارلی ہیبڈو کو سب سے عظیم ہستی حضرت محمد ۖ کا مذاق اڑانے کی اجازت دیتا ہے تو دیودونی ایمبالا کو چارلی ہیبڈو کا مذاق اڑانے کی اجازت کیوں نہیں بلکہ چارلی کے بارے میں مذاقیہ لطیفہ کو جرم قرار دیا گیا اور دیودونی کو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق استغاثہ نے کہا ہے کہ دیودونی ایمبالا پر مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ اس نے فیس بک پر اپنے پیج میں لکھا کہ مجھے چارلی ،کولی بیلی جیسا لگ رہا ہے ۔اس کی وضاحت یوں سمجھو استغاثہ کے مطابق امیدی لی بیلی وہ شخص ہے جس نے سپر مارکیٹ کوشر پر حملہ کر کے چار مغویوں کو ہلاک کر دیا تھا یہ کاروائی بھی چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کا تسلسل قرار دی گئی ۔مزاحیہ اداکار دیودونی ایمبالا نے مذاق یہ کیا کہ چارلی کی حمایت میں لگائے نعرے ”جے سوئس چارلی” کو حملہ آور امیدی کو لی بیلی کے نام کے ساتھ مکس کر دیا اور کہا کہ مجھے لگ رہا ہے چارلی اور کولی بیلی ایک جیسے ہی ہیں ۔مطلب یہ بنا کہ قاتل اور مقتول میں کوئی فرق نہیں۔

دیودونی نے جب یورپ کی آزادی اظہار کو اپنایا ہے تو فرانس میں آگ بھڑک اٹھی ہے فرانسیسی وزیر داخلہ برنارڈ کرنیوے نے کہا کہ دیودونی کے فیس بک پر لکھے گئے لطیفہ سے غیر ذمہ داری اور توہین ٹپک رہی ہے جو نفرت اور تقسیم کا باعث بنے گی چنانچہ دیودونی کی اس بات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔میں سمجھتا ہوں کہ دیودونی ایمبالا نے آزادی اظہار کے علمبرداروں کو اپنے گھر ہی میں آئینہ دکھادیا ہے ۔اگر فرانس سے بدنام زمانہ چارلی کی توہین برداشت نہیں ہوتی تو دو ارب مسلمانوں سے اپنے عظیم نبی ۖ کی توہین کیسے برداشت ہو سکتی ہے ۔یہ اعتراض فرانس کے ایک اخبارلی موند نے بھی اٹھایا ہے اس نے لکھا ہے ”جب چارلی ہیبڈو اپنے صفحہ اول پر مذہب کا مذاق اڑا سکتاہے تو پھر دیودونی ایمبالا کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے” اس سے فرانس کا دوغلاپن واضح ہو گیاہے کہ دیودونی ایمبالا کی آزادی اظہار کی ضرب چونکہ مسلمانوں کو نہیں لگتی ہے چنانچہ وہ تو قانونی جرم ہے ۔اور چارلی ہیبڈو کی ضرب چونکہ مسلمانوں کو لگتی ہے تو اس لئے وہ جائز ہے۔ دیودونی نے جب اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں امریکی صحافی جیمزفولی کا سر قلم کیے جانے کامذاق اڑایا تو اسے اس وقت بھی یہ مذاق بڑا مہنگا پڑا۔ اسے یہودیوں کی توہین کے جرم میں بھی کئی بار سزادی گئی ۔دیودونی ایمبالا کو 2013 میں بھی سزا ملی جب اس نے ایک پروگرام گیس چیمبر اور یہودی صحافی کا مذاق اڑایا ان تمام شواہد سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یورپ آزادی اظہار کے ہتھیار کا استعمال صرف مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتاہے ۔ہماری مقدس شخصیات ہمارے نظریات ہمارے شعائر اور اقدار کو نشانہ بنا رہا ہے ۔یہودیوں نصرانیوں ،ہندؤں اور سکھوں کے بارے میں اظہارِ رائے کی حد ہے اور خلاف ورزی جرم ہے مگر مسلمانوں کے خلاف اظہار رائے کو بے لگام کر دیا گیا ہے ۔یورپ میں ہو لو کا سٹ پر بات کرنا جرم ہے ۔ہولوکاسٹ کے واقعے کے لحاظ سے سخت قوانین موجو د ہیں اس موضوع پر لکھنے والوں کو باقاعدہ سزائیں دی جاتی ہیں۔

Adolf Hitler

Adolf Hitler

ہولو کاسٹ کیا ہے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے جو تقریبا 6 ملین یہودیوں کو گیس چیمبرز میں جلا ڈالا اسے ہولو کاسٹ کہا جاتاہے اس کے معلق مغربی پریس میں کچھ لکھنا یا بولنا قانونی طور پر جرم ہے۔ بھارتی خلائی پروگرام قانون کے خلاف کارٹون بنے تو چھاپنے والوں کو معانی مانگنی پڑی۔ز ولانڈ پوسٹن کے ایک صحافی کو اس لیے نکال دیا گیا تھاکہ اس نے عسائیت کے خلاف لکھا تھا ۔1970 میں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال کی وفات کے موقع پر ایک فرانسیسی اخبار نے اس کی وفات کی خبر غیر مناسب انداز میں لگائی تو اس اخبار کو بندکر دیا گیا ۔ان تمام مثالوں سے یہ پتہ چلتاہے کہ آزادی اظہار وہ دیو نہیں ہے جس کے لیے کنٹرول پاور نہ ہو ایک مہذب معاشرہ آزادی اظہار کی حدود و قیود کے بغیر تشکیل ہی نہیں پاسکتاہے اس کا برقرار رکھنا تو دور کی بات ہے۔ لہٰذا یورپ کو اپنے آزادیٔ اظہار کے بد مست ہاتھی کو شانِ رسالت ۖ کے معاملہ میں شکنجے میں جکڑنا ہوگا ۔روسی صدر پیوٹن نے ایک سخت حکم نامے کے ذریعے روسی میڈیا کو پابند کر دیاہے وہ چارلی ہیبڈوکے حق میں مضامین نہ لکھیں اور نہ ہی گستاخانہ خاکوں کو ری پرنٹ کریں ایک روسی اخبار نے لکھا ہے کہ صدارتی احکامات پر روسی پارلیمنٹ میں جلد ہی ایک مسودۂ ِقانون پیش کیا جائے گا جس کے تحت کسی بھی مذہب کی توہین کا پہلورکھنے والی تحریروں تصاویریا ویڈیوز پر پابندی ہو گی۔

مگر دوسری طرف آزاری اظہار کے مسئلہ پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پوپ فرانس کا موقف بھی مسترد کر دیاہے۔ جس میں پوپ آزادی اظہار کی حدود و قیود کا مطالبہ کیا تھا ۔فرانسیسی حکومت نے تو ہٹ دھرمی کا اس قدر مظاہرہ کیا ہے کہ گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد انٹر نیٹ کمپنیوں پر دباؤ ڈا ل کر اس گستاخ میگزین کو Google اور Apple کے ذریعے لانچ کر وا دیا ہے ۔پوپ فرانس نے اسے آزادی اظہار کی حدود قیود کو ضروری قرار دیا ورنہ اس پر مسلمانوں کے رد عمل کو فطری قرار دیا مگر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پوپ کی بات کو مسترد کر دیا آزاد معاشرے میں توہین مذہب ،توہین انبیاء کو اپنی آزادی قرار دیا ایک دن یورپ اپنی اس آزادی کی لگائی ہوئی آگ میں خود جل جائے گا مگر لمحہ موجود میں ہمارے کڑی آزمائش ہے۔

امام مالک رحمة اللہ علیہ نے کہا تھا کہ اس امت کو جینے کا کیا حق جس کے نبی ۖ کی گستاخیاں ہو رہی ہوں ۔شاید تاریخ میں اتنی بڑی توہینِ رسالت کبھی بھی نہ ہوئی ہو جتنی پچاس لاکھ خاکوں کی شکل میں ہوئی مگر مسلم حکمرانوں کا ضمیر اب بھی بیدار نہیں ہوا یہ مذہب بیزار حکمران امریکہ اور یورپ کی ذہنی غلامی کی وجہ سے مسلمانوں کی ترجمانی سے عاری ہیں گذشتہ دنوں ترکی کے شہر استنبول میں او آئی سی کا اجلاس منعقد ہو امگر وہ بھی بے سود ثابت ہوا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے ضمیر بیدار کریں گستاخیوں کی روک تھام کے لیے مغرب سے تعظیم انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے قانون سازی کروانا لازم ہو چکا ہے اس بڑے مقصد کے لیے یہ کام یورپی یونین یا اقوام متحدہ کو خطوط لکھنے سے نہیں ہو گا کیونکہ عریضہ کی آواز نہیںبلکہ فریضہ کا انداز اپنانا ضروری ہے اگر مغرب تعظیمِ انبیاء علیہم السلام کا قانون پاس نہ کرے تو امت مسلمہ اپنا بلاک تشکیل دے اور مغرب سے مکمل بائیکاٹ کرے۔

Muhammad Ashraf Asif

Muhammad Ashraf Asif

تحریر : ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی