یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

Freedom

Freedom

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
3 جون 1947 کے قانونِ آزادی ہندوستان اور اعلان ِآزادی کے تحت بے پناہ قربانیوں اور ہمارے رہنماﺅں کے ایثار کے نتیجے میں پاکستان کو آزادی کی نعمت سے سرفراز ہونا مقدر ٹہرا۔یہ اعلانِ آزادی ماہِ رمضان کے جمعہ کی 27 ویں شب کی برکتوں اور مبارک ساعتوں میں حاصل ہوا ۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے اللہ کی اس نعمت کی پاسداری نہیں کی اور اپنی بد فعلیوں کی سزا کے لئے وطن عزیز کو چُن کر اس کے حصے بخرے کر ادیئے۔اس مملکتِ خدا داد کو توڑنے والوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہو ا کہ اس وطن کی آزادی کے لئے ہم نے دو سو سال کی طویل مسافت کے ساتھ لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دیں تو یہ خطہءامین ہمارا مقدر بنا۔ پاکستان کا قیام بے پناہ خون مسلم بہائے جانے کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔

دو صدیوں کی اس جدوجہد میں جہاں نواب سراج الدولہ کا لہو سب سے پہلے شامل تھا وہیں ٹیپو کی للکار اور پھر شہادت بھی اس میں شامل تھی۔تحریک ِآزادی کے ابتدائی زُعما میں سر سید احمد خان کا نام بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔جو ہندووں کی شاطرانہ چالوں کو بہت پہلے بھانپ چکے تھے اور مسلمانوں کو راہِ منزل سجھانے میں سب سے آگے آگے تھے۔ایک جانب کانگرس کی شاطر قیادت تھی جس میں ایم کے گاندھی جیسے سے چالاک اور خود غرض رہنما موجود تھے ۔تو دوسری جانب کُل ہند مسلم لیگ کے نا بکنے والے شریف النفس رہنما تھے۔مسلم لیگ میں بڑے ناموں کی کمی تو نہ تھی مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی سی بصیرت کے چند ہی لوگ اس میں شامل تھے۔جو مسلمانوں کی کشتی کو منزل تک پہنچانے کی کوششوں میں اپنا دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔جس پرماضی کا ہر پاکستی مسلمان فخر کرتا ہے کہ ہمارے ان رہنماﺅں نے ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“!!!۔

ہندووں کی دو سو سالہ زیادتیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان اکٹھا رہ ہی نہیں سکتے ہیں رہی سہی کسر 1937 سے 1939کے ہندوستان پرڈھائی سالہ کانگریسی اقتدار کے دوران پور ی ہوگئی تھی(جو اسے پہلی مرتبہ ملا تھا)۔ جس کے دوران کانگریسی حکومت نے مسلمانوں پر ظلم و زیادتیوں کی انتہا کر دی تھی، اذان و نماز اور ±قربانی پر پابند لگادی گئی تھی بندے ماترم کا متنازعہ گیت اور گاندھی کیپ پہننا ہر اسکول میں لازمی قرار دیدیا گیاتھا اور مسلمانوں کے تمام جائز مطالباکو پسِ پشت ڈالدیا گیا تھا۔ان حالات میں مسلمانانِ ہند کےلئے الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ نا گذیر ہو گیا تھا۔لہٰذا ایسی کیفیت میں پاکستان کی پیش بینی علامہ اقبال نے اپنے خطبہ ¾ الہ آباد میں 1930 میں کر دی تھی۔اسے چوہدری رحمت علی نے 1933میں ایک نام ”پاکستان“ دیدیا۔اور اسے حقیقت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی قیادت نے بنا دیا۔اس وطن کی نقاشی کرنے والوں میںمولانا عبدالحلیم شرر،عبدالقادر بلگرامی اور سردار محمد گل خان شامل تھے۔پاکستان کے خاکے میں رنگ بھرنے والوں میں مولانا اشرف علی تھانوی اور اُن کا خانوادہ،مولانا جمال الدین افغانی، اور مولانا محمد علی جوہر کے نام شامل ہیں۔

Lahore's Minto Park

Lahore’s Minto Park

جس کا باقاعدہ اسمبلی کے فلور سے مطالبہ 1938 میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں کیا گیا۔ اس مطالبے کی قبولیت کے نتیجے میں 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قرار دادِ پاکستان کو قبولیت عامہ مل گئی۔ اسلامیان ہند نے ہر جانب سے اس کی بھر پور تائد و حمایت کی تھی۔ مگر کانگریس کے ایوانوں میں تقسیمِ ہند کے نا م پر ہا ہا کار مچ گئی تھی۔سب سے اہم بات اس مطالبے کی یہ تھی کہ اس مطالبے کی سو فیصد تائد و حمایت ان مسلم اقلیتی صوبوں میں کی گئی جو پاکستان کا حصہ بننے والے نہ تھے۔جب مسلم لیگ کے الہ آباد کے جلسے میںتحریکِ پاکستان کے خیبر پختون خوا کے عظیم رہنما عبدالرب نشتر نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ” اس علاقے میں تو پاکستان نہیں بنے گا پھر بھی آپ اس قدر جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟“

تو اُس بزرگ نے برجستہ جواب دیا کہ ” ہم لوگوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل نہ ہوگا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان بنانے پر ہندو ہمیں ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں گے مگر ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہماری وجہ سے ہمارے بھائیوں کو آزادی کی نعمت میسر آجائے گی“یہ تھا تحریک ِپاکستان کے دوران مسلمانانِ ہند کا جذبہءایثار کیا دنیا کی تاریخ ایسی مثال پیش کر سکتی ہے؟ہندوستان کا ہر مسلمان قیام پاکستان کا دل سے خوہاں تھا اور ہر قربانی کے لئے تیار بھی تھا۔

پاکستان کے قیام کے گیارہ سال کے بعد ہی اس قربانی دینے والی قوم میں لُٹیروں نے سر اٹھانا شروع کر دیئے تھے ۔جس کے نتجے میں قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوگئی اور مملکتِ خدا داد پر لُٹیرے اور غاصب چھا گئے جنہوں نے اس قوم کے نقوش ہی بدل کر رکھ دیئے ۔اُس وقت سے آج تک میرے قائد کے اس وطن میں لُوٹ مار کا بازار روز بروزاپنی آب و تاب کے ساتھ بڑھتے بڑھتے زمین کی اتھا گہرائی اور آسمان کی اتھا بلندیوں کو چھو رہا ہے۔دنیا کا کونسا جرم اور کونسا گناہ ایسا ہے جو اس زنگ آلود قوم میں اپنی جڑیں پھیلانے سے رہ گیا ہو؟سیاست کے نام پر بے ایمانی، عقربہ پروری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے جس میں سے ہر ایک اپنا اپنا حصہ حاصل کر کے آج تو اپنے مکروہ چہرے بھی نہیں چھپاتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ وطن کے بانیوں کی اولادوں کا دعویٰ کرنے ولے وطن دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اُن ہی سے مدد کے طلب گار ہیں؟؟؟یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بانیانِ پاکستان کی دو نسلوں کو عِلم کے میدانوں سے ہٹا کراور ہتھیار تھماکر سیاست کے نام پربربادی کے لق و دق صحرا میںبے یارو مدد گار چھوڑ کر اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعدان کوکٹی پتنگ کی طرح بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے، اور یہ بے چارے قانون کے ہاتھوں جب پکڑے جاتے ہین تو ان کی پہچان تک سے ان کو استعمال کرنے والے انکاری ہوجاتے ہیں اور وہ بے چارے مکافاتِ عمل کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور یہ پھر بھی یہ مکرو چہرے سیاست کے میدان کے شہسوار ہی رہتے ہیں۔

بانیان پاکستان کا تو اپنے قائد سے یہ وعدہ تھا کہ ہم اس سر زمین کے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے۔ کیونکہ یہ ہماری پاکستانیوں کی آپ سے اور آپکے کاذ سے عقیدت و محبت ہی تو ہے۔ کہ ہم آپ کے اور اپنے دیگر اکابرین کے خواب بکھرنے نہیں دیں گے ہمیں اس حقیقت سے انکار کی بھی ہمت نہیں ہے کہ ہم ذاتی مفادات اور قومی غیرت کا سودا کر کے اپنی کوتاہیوں اور منافقانہ رویوں سے اس مملکت کا ایک بازو کٹو کر ڈھٹائی سے نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر پاکستانیوں کو ضمیر کا مجرم بنانے میں ہی اپنی عافیت جان رہے ہیں۔

اے میرے قائد تیری دھرتی کے دشمنوں نے تیرے بچوں سے قلم و قرطاس چھین کر عصبیت و دہشت گردی کی راہ پر لگا کرہماراسُکھ چین و سکون چھین کر ہمیں بھی مشکوک بنا دیا ہے۔آپکے جانبِ منزل متعین کردہ راستوں کو بدل ساری قوم کو جھوٹ فریب اور بے ایمانیوں اور دہشت گردی پر لگا کر دین و دنیا دونوںسے ہمیںدور کر دیا ہے۔حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے جب باپ کے راستے سے غداری کی تو ربِ کائنات نے اسے بھی ضالین کی صف میں کھڑا کر دیا تھا ۔ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہا ہوں گے؟مگر محبانِ پاکستان کے بجائے تمام غاصب و لُٹیرے آج یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ ”یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان!!!

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com