کیا خبر تم کو یہ دوستی کیا ہے

Friend

Friend

تحریر : راشد علی راشد اعوان
اللہ تعالیٰ کی جانب سے رشتوں کی صورت میں عطا کردہ نعمتوں کے کیا کہنے مگر دوستی وہ نایاب نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے،دوستی رب کائنات کا وہ تحفہ ہے جو قدرتی رشتوں سے منفرد وہ ناطہ ہے جو ہمت،حوصلہ عطا کرتاہے انسانی خصلت میں شامل ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے وہاں کے لوگوں سے اس کی جان پہچان ہو جاتی ہے وہاں کے لوگوں کے ساتھ وہ گھل مل جاتا ہے اور اسے پھر دوستی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ محض جن سے جان پہچان ہو وہ دوستی کے زمرے میں نہیں آتے بقول مرشد جی کسی سے تعلق ہونے کو اس سے ملنے جلنے کو یا جان پہچان کو ہم دوستی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ہو تی ہے لیکن دوست صرف وہی ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہہ سکتے ہیں دوست وہ ہے جو دوست کیلئے اپنی جان تک قربان کر دینے کا حوصلہ رکھ سکتا ہو موجودہ دور میں ایسی باتیں محض کتابی محسوس ہوتی ہیں مگر ہمارے دیہی علاقے اور شہروں کی نفسا نفسی سے دور ایسے کئی علاقے اب بھی ہیں اور شہروں میں بھی ایسے رشتے نبھانے والوں کی کمی نہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دوستی ایک اجالا ہے ایک ایسی روشنی ہے جس کے آگے کسی بھی اندھیرے کا تصور نہیں

لیکن یہی دوستی دوسری جانب ایسی سیاہ رات یعنی اندھیرا بھی ثابت ہوتی ہے جب انسان کی پہچان غلط نکلتی ہے ،انسان کو اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب اسے دوستی کی آڑ میں دھوکا ملتا اور اخلاص و اعتبار کے اس رشتے سے ٹھوکر لگتی ہے تو ایسے میں اس کے پاس کرنے کو یا کہنے کو کچھ نہیں بچتا، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دوست ایک حسین خواب بھی ہے اور خواہشات سے بھرا ہوا ایک ایسا جزیرہ بھی ہے ، دوستی تو ایک ایسا ہی رشتہ ہے جسے اگر دیکھا اور سمجھا جائے تو بہت مضبوط جسے دنیا کی کوئی طاقت نہ توڑ سکے لیکن اگر ٹوٹنے پہ ہے تو ایک کچے دھاگے سے بھی کمزورہے ،دوست کے تقدس سے دل لبریز ہو تو روشن ہو اور اگر نا شکرا ہو تو پتھر بن جاتا ہے۔حضرت علی کا قول ہے کہ جس کا کوئی دوست نہیںوہ تن تنہا ہے

ایک اور مقام پر خلیفہ چہارم کا قول ہے کہ غریب ہے وہ شخص جس کا کوئی دوست نہیں اور دوست ہمدرد ہوتا ہے اور اس شخص کا کوئی ہمدرد نہیں،نفسا نفسی کے اس دور میں اب کسی سے تعلق واسطہ بھی رسمی اور مجبوری بنتا جا رہا ہے،حالت تو یہ ہے کہ ایک ہی چھت تلے رہنے والے بھی اسی نفسا نفسا کے عالم میں گھر کے سبھی افراد سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں،موبائل اور انٹر نیٹ ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سی خوشیاں اور روانیاں عطا کی ہیں وہیںدکھ اور تکالیف کا بھی جال بچھا دیا ہے،اپنے گھر میں اپنے پیاروں کے دکھ درد سے بے خبر ساری دنیا کے دکھ درد سے باخبر رہتے ہیں ،ان ہی عوامل نے رشتوں کو کمزور بنا کے چھوڑ دیا ہے،جب خون کے رشتے کمزور اور کھوکھلے ہونا شروع ہو جائیں تو پھر دوستی جیسے رشتوںپر اعتماد کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے،قدرتی امر ہے کہ انسان دنیا میں مختلف رشتوں سے بندھا پیدا ہوتا ہے

Mom and Dad

Mom and Dad

ماں باپ ،بہن بھائی وغیرہ یہ تمام وہ رشتے ہیں جو کائنات قدرت کی جانب سے ایسے عطا ہوتے ہیں جن پر انسان کا اپنا اختیار نہیں ہوتا تاہم ان رشتوں کو نبھانا اس کے اپنیبس میں ہوتا ہے،لیکن دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جسے ہم اپنی مرضی اور چاہت سے منتخب کرتے ہیں اور یہ وہ بے غرض رشتہ ہے جس میںمحبت اور خلوص کے سوا کچھ نہیں ہوتا، ذات، عمر، سوشل سٹیٹس ،قوم رنگ و نسل سے بے نیاز یہ سب کچھ دوستی کے لئے بے معنی ہیں ،یہ سچ ہے کہ دوست خوشیوں کو دوگنا اور غموں کو آدھا کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جواس رشتے کو کسی نہ کسی غرض اور مطلب ہی کیلئے استعمال کرتے ہیں، آج کے دور میں لوگوں نے اس مقدس رشتے کو کھیل اور تفریح و دل بہلانے و مشغلہ و وقت گزاری ، پیسہ ، پاور ، یا کسی اور مقصد کے ساتھ اس کے تقدس کو تار تار کر چھوڑا ہے، گلوبل ویلج کے اس ترقی یافتہ دور میں ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں ہرشخص ایک دوسرے سے انگلیوں کی جنبش تک دور ہے،فیس بک، ٹویٹر، سکایپ جیسے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے جہاں اور بہت سی فوائد ہیں وہیں ان کے غلط استعمال سے ہمارا آج کا نوجوان اخلاقی اقدار سے گرتا جا رہا ہے،اسی سوشل میڈیا کے غلط،بے تکے اور بے مقصد استعمال سے ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے

یوں اسی دوستی کے نام پر لوگ بلیک میلنگ، اغوا اور بہت سے دوسرے جرائم کی نظر ہو رہے ہیں،ایسے ہی حالات نے دوست اور دوستی کے رشتوں پر سے اعتبار و اعتماد کو کمزور بنا دیا ہے، دلوں سے خلوص،چاہت اور ہمدردی غائب ہوتی جا رہی ہے، خلیل جبران اپنی کتاب فلسفہ دوستی میں بیان کرتے ہیں کہ”تمہارا دوست وہ ہے جو تمہاری احتیاج پوری کرے””وہ تمہارا وہ کھیت ہے جس میں تم ,محبت کی تخم پوشی کرتے ہو””اسی کھیتی کو تم تشکر اوراطمینان کے ساتھ کاٹتے ہو”اور جب تمہارا دوست اپنے دل کی کوئی بات تم سے کہتا ہے، تو تم کو نہ اپنے دل کی ”نہیں” متردو کرتی ہے نہ تم اس کو اپنی ”ہاں” سے محروم رکھتے ہواور جب وہ خاموش ہوتا ہے تب بھی تمہارا دل اس کے دل کی گفتگو سننے سے عاری نہیں ہوتااس لئے کہ بغیر الفاظ کی مدد کے ، دوستی کے افکار ، تمام خیالات ، ”تمام خواہشات، تمام توقعات، تمام ارادے پیدا ہوتے ہیںان سے دوستوں کے لئے ایک مسرت حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔ بے طلب اور دوستی کا کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے

سوائے اس کے کہ تم دوست کے ساتھ ایک مشترک روحانی گہرائی میں شریک ہوجاؤ اس لئے کہ محبت نہیں چاہتی کہ اس کا بھید واضح ہواور جو کچھ تمہارے اندر بہتر اور اعلی تر ہے وہی دوست کو دو اگروہ چاہتا ہے تمہارے ”مد” کے ” جزو” بھی دیکھے تو اس کو اپنے دریا کی طغیانی بھی دیکھا دواس لئے کہ وہ تمہارا دوست ہی کیا ہے جسے تم صرف اس لئے ڈھونڈتے رہو کہ اس کی صحبت میں تم اپنا خالی وقت گزار سکو وہ ساعتیں جو تم پر گراں ہیں،بلکہ دوست کو تو اس وقت ڈھونڈو جب تم بیداری عمل کا وقت گزارنا چاہواس لئے کہ دوست کا کام یہ ہے کہ وہ ,تمہارے تقاضوں اور تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے نہ یہ کہ تمہارے اوقات کے خالی کاسہ کو بھرا کرے اور دوستی کی حلاوت میں اپنے تبسم کو ملادو ، اور اپنی مسرتوں کو مشترک کرلواس لئے کہ جب زندگی کی معطر شبنم دل پر گرتی ہے تب ہی اس کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔

Rashid Awan

Rashid Awan

تحریر : راشد علی راشد اعوان