جیو ایوارڈ

Geo Urdu

Geo Urdu

تحریر : شاہ بانو میر

کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند کیوں نہ عاجزی پے اپنی ناز کرے

جیو اردو (فرانس) کی جانب سے دو روز قبل ایک نیوز شئیر کی گئی – جس میں الحمد للہ اس ناچیز کو
اللہ پاک نے بہترین کالمسٹ کے لئے نامزد کروایا – جیو اردو فرانس ممنون ہوں اور مشکور کہ کسی پاکستانی کی زندگی میں اس کی خدمات کا برملا اعتراف کیا گیا – جیو اردو جیسی معروف ویب سائٹ جس کے اعلیٰ معیار کا ہر بازوق مطالعے کا شوق رکھنے والا پاکستانی معترف ہے اس کی جانب سے یہ اعلان بذات خود ایوارڈ کیلئے چنے جانے والوں کیلئے باعث افتخار ہے – ادارے کی ذمہ داری مہارت پختگی اور غیرجانبداری کیلئے پہلے ہی متعدد بار لکھ چکی – 2016 کو لکھا تھا کہ تجزیاتی حٍس کہہ رہی ہے کہ ہر ادارہ ہر شعبہ ہرمحکمہ ہر فرد اجتماعی انفرادی طور پے واضح ہوگا اس سال کہ وہ اصل میں کہاں ہونا چاہیے – اللہ پاک نے اس یقین پر اپنے کرم کی مہر 2016 میں خود مجھ سے ابتداء سے کر دی کہ جیو ایوارڈ کیلئے چنی گئی – جیو اردو فرانس نے غالبًا پہلی بار اس قسم کا اعلان کیا ہے جس میں نمایاں طور پر صرف 2 لوگوں کا نام دے کر بہترین انداز میں ان کی طویل عرصہ سے جاری صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے -جس کیلئے میں ممنون ہوں جیو اردو فرانس کے اس احسن اقدام پر- ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی – اس ایوارڈ کی سب سے نمایاں خوبصورتی اس خبر کی مضبوطی ہے کہ ایوارڈ صرف حقدارکو دیے جائیں گے –

مختصر دو ٹوک فیصلہ جو ادارے کی مضبوط پرکھ ہے- اداروں کو جب اپنی کارکردگی اور کامیابی کا مکمل یقین ہو – جبھی وہ ایسے شاندار جرآت مندانہ فیصلے کر پاتے ہیں – سچائی کے ساتھ محنت کرنے والوں کیلئےجیو اردو کی صورت ابھی پُرشور آسیب زدہ دنیا میں زندگی کی سچی حرارت پر مبنی رمق موجود ہے – مکمل نا امیدی نہیں ہے – اردو لنک کے پلیٹ فارم سے شروع ہونے والا یہ تحریری سفر پاکستانی مسائل کا سفر سچائی پر مبنی تھا تحریر کا تاوان قدم قدم پر ادا کرنا پڑا بےبنیاد تنقید اعتراضات دھڑے بندی کی وجہ سے حالانکہ میری تحریر صرف وطن عزیز اپنی قوم کیلئے ہے جو لکھتا تھا قلم وہ میری یا کسی کی ذات نہیں تھی مظلوموں کی آہیں تھیں فغاں تھیں جن کا درد اتنا شدید تھا کہ کسی کے بے معنی اعتراض کو خاطر میں نہیں لاتا تھا –

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

امید تھی پاکستان بدلے گا جوبظاہر کچھ سال پہلے ناممکن لگتا تھا خوب مذاق اڑاتے تھے لوگ پاگل اور نجانے کیا کیا کہتے تھے میں سوچتی تھی با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب آج سب سچ ہوا پاکستان کی ترقی دیوانے کی بڑ نہیں آنکھوں کے سامنے دکھائی دے رہی ہے – میرا تحریری سفر کامیابی سے ہمکنار ہوا – تحریر کو شناخت کر لیا گیا 2014 میں سفارت خانہ پاکستان میں اکیڈمی کیلئے بہترین ستائشی کلمات کہے گئے جسے سب نے سنا – اور اب روشن مثال جیو ایوارڈ ہے – تحریر کےجنون کو کہیں مہمیز نہیں تھی – پُر خطردشوار گزار نوکیلے راستوں پر آبلہ پا چلتی رہی بلا خوف و خطر قوم کا درد ایسا تھا کہ ماہی بے آب کی طرح ان کی لاچاری بے بسی بے کسی پر قلم روتا تھا – اتنے خوبصورت اعلان گویا نئی روح پھونک دی ہو مردہ سوتوں میں -ایوارڈ ملا اسکو جو ایک اجتماعی سوچ ہے ایک درد ہے ایک احساس ہے ایک امید ہے ایک کامیابی کی دعا ہے جسے ایوارڈ کی صورت قبولیت کا شرف حاصل ہوا ہے یہ ایوارڈ اُن کیلئے ایک پُرامید پیغام ہے کہ ابھی کچھ ادارے زندہ ہیں جو قابلیت کو پرکھنے کا شعور رکھتے ہیں تحریر کا پُر پیچ طویل سفر تھا کیسے کیسے مراحل سے نبرد آزما ہونا پڑا تحریر کے تاوان بہت بار ادا کئے انعام کیلئے حقدار پہلی بارمانا گیا جس کیلئے اللہ کے بعد جیو اردو کی اور تمام پڑھنے والوں کا شکریہ اوردعائیں کرنے والوں کی ممنون و مشکور ہوں – شکریہ جیو اس ایوارڈ میں چھپے سچائی اور زندگی سے بھرپور پیغام کیلئے

بقول شاعر
ہم کو شاعر نہ کہو “”میر”” کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر