گلگت بلتستان اور ماحولیاتی آلودگی

Gilgit Baltistan

Gilgit Baltistan

تحریر: شیرین کریم
گلگت بلتستان کو خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کے خوبصورت مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ یہ علاقہ پوری دنیا میں اپنی الگ حیثیت رکھتا ہے۔ علاقے کی خوبصورتی اور قدرتی حسن کی بدولت اس علاقے کو جنت نظیر علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں پر قدرتی جھلیں، پہاڑ، دریا، میدان، آبشار، گلیشئرز، خوبصورت سرسبز وادیاں شامل ہیں جن کو دیکھ کر بے امتیاز قدرت کی تعریف زبان سے نکل جاتی ہے۔

یہ جنت نظیر علاقہ چاروں طر ف سے پہاڑوں سے گَِھرا ہونے کی وجہ سے سیلاب، زمینی تودوں کے گرنے، گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے، زلزلہ اور دیگر خطرات کی زد پر رہتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں گلیشئرز کے سرکنے کی اوسط رفتار 48.60 سینٹی میٹر سالانہ ہے۔گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے خطرات ازل سے ہیں اور ان قدرتی آفات کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن آج کا زمانہ سائنسی اور ریسرچ کا دور ہے جہاں دیگر علوم کے ساتھ اداروں اور ماہرین کو قدرتی آفات سے متعلق ریسرچ کرنے کی سہولیات اورمیسر معلومات پر عبور حاصل ہے۔ جس کی بدولت قدرتی آفات سے بچاؤ اور جانی و مالی نقصان کو کم کرنے کیلئے ادارے سرگرم عمل ہیں۔

موسمی تفیرات اور انسانی جانوں پر پڑے والے اثرات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے کئی ادارے سرگرم عمل ہیں جن میں میٹیرو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ (محکمہ موسمیات) اور نیشنشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ فوکس پاکستان جیسے غیر سرکاری ادارے شامل ہیں۔۔

قدرتی آفات مثلا زلزلہ، لینڈ سلائیڈنگ، آسمانی بجلی کا گرنا، سیلاب اور گلیشئرز کے پگھلاؤ کے سبب آنے والے سیلابی ریلے اور گلیشیرز کی تہہ کے نیچے بنی جھیلوں کے پھٹنے سے برپا ہونے والے سیلاب (گلاف) انسانی آبادیوں کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور یہ قدرتی آفات کئی وادیوں کو اجاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ جس کی بہت بڑی مثال لینڈ سلائیڈنگ کی بدولت عطاء آباد جھیل کا وجود میں آنا اور اس کی وجہ سے برپا ہونے والی تباہی و بربادی ہے۔

Glaciers Lakes in Gilgit Baltistan

Glaciers Lakes in Gilgit Baltistan

گلگت بلتستان میں 5218 گلیشئرز اور 2420 گلیشئرز جھیلیں موجود ہیں جن میں سے 52 جھیلوں کو انسانی آبادی کیلئے خطرناک قرار دیا جا چکا ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان میٹرولوجی ڈ یپارٹمنٹ کی ریسرچ سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں خطرے کی زد پر موجود 36 جھیلیں ہیں۔ سروے کے مطابق ان چھتیس میں سے 7 جھیلیں انتہائی خطرناک ، 12خطرناک اور 13 کم خطرناک ہیں۔ انتہائی خطرناک جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں، جو مقامی آبادیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ کم خطرناک جھیلیں بارش اور زلزلہ کے دورانخطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

گلگت بلتستان کے جن علاقوں میں گلیشر جھیلیں موجود ہیں ان میں گلگت ، ہنزہ ، استور ، شگر ، شکیوٹ ، وغیرہشامل ہیں۔ گلگت میں بگروٹ ، ہنزہ ، اپر ہنزہ ، اشکومن ، یاسین ، استور ، گوپس کی جھیلیں خطرناک ہیں جو پھٹنے کے سبب نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ ان خطرناک جھیلوں کے پھٹنے کے سبب زرخیز زمینوں ، فصلوں ، جنگلات ، روڈ ، واٹر چینل پائپ لائن اور آبادیوں کو نقصان پہنچنے کے خطرات ہیں۔

انٹر نیشنل سنٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ای سی موڈ) کے سائنسدانوں کے حوالے سے ہمالیہ اور ہندوکش کے تیزی سے پگھلنے والے گلیشرز کے متعلق ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ ہمالیہ اور ہندوکش کے گلیشرز کے پگھلنے کی ایک اہم وجہ بلیک کاربن ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بھی گلیشرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ جیسے گھروں میں لکڑی جلانے کے بعد ایندھن کے جلنے سے جو کالا دھواں نکلتا ہے وہ انرجی یا لائٹ کو اپنے اندر تیزی سے جذب کر دیتا ہے کاربن ڈائی آکسائیڈ ، کالانا دھواں صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کیلئے بھی خطرناک ذہر ہے۔ کیونکہ ان علاقوں میں لکڑیاں بہت جلتی ہیں اسکے علاقہ کالا دھواں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے بھی زیادہ مقدار میں نکلتا ہے۔

بلیک کاربن سے برف جلدی پگھل جاتا ہے اور بیلک کاربن کی وجہ سے برف پگھلنے کی رفتار زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔ حالیہ سردی نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ موسم کی بڑی تبدیلی کی وجہ سے بارش ، برف باری ، موسم کی تبدیلی ،کلائمیٹ سائیکل تبدیل ہو رہا ہے۔ ماہرین ، کا مزید کہناہے کہ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے درختوں کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے اور درخت ناپید ہو تے جارہے ہیں جس سے ہوا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی بدولت موسمی تغیرات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تیزی سے پگھلنے والے گلیشرز کی بدولت جھیلوں میں موجود پانی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی کے گرنے ، زلزلہ کی وجہ سے پھٹ جاتے ہے اور خطرناک قسم کا سیلاب کا باعچ بن جاتا ہے۔ جو انسانی آبادیوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکت ہے۔ ماہرین کے مطابق ہمالیہ کے پہاڑوں سے پگھلنے والا گلیشر جس میں سے تیس فیصد انڈکے ماحولیاتی آلودگی کے سبب پگھلتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر درختوں کی کٹائی کو روکا جائے اور اسکے متبادل راستے ، ذرائع ، تلاش کرکے ایندھن کے طور پر استعمال کئے جائیں ، گھریلو امور کی انجام دہی میں گیس کا استعمال ، یا پھر بجلی کی مقدار میں اضافہ کرکے بجلی کا زیادہ استعمال اور درختوں کے کٹاؤ کو رروک کر ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

گلگت بلتستان کے حالیہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ظہیر الدین بابر سے بات چیت کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان ہمیشہ قدرتی آفات کا شکار رہا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے قدرتی آفات کے سبب کئی آبادیوں کو نقصان اور آباد کاریوں کو نیست و نابود کررہا ہے۔ مگر جی بی ڈی ایم اے کی کاوشوں کے سبب گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے سبب آنے والے نقصانات کو پہلے کی نسبت کم کر دیا گیاہے۔ این ڈی ایم اے کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں متاثرہ علاقے میں جاکر متاثرین کی جان بچائی ہے۔ انہیں خوراک مہیا کیا جاتا ہے۔ شلٹر بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔

Natural Disasters

Natural Disasters

جی بی ڈی ایم اے کے پائلٹ پراجیکٹ جو بگروٹ میں گلاف کے نام سے قیام عمل میں آیا تھا علاقے کے لوگوں کو قدرتی آفات سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ مختلف ٹریننگ بھی مہیا جئے جاتے ہیں اور گلاف پروجیکٹ یو این ڈٰ پی کا مشترکہ پروجیکٹ ہے جس نے 2011سے 2015تک بگروٹ ویلی میں قدرتی آفات سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ گلاف کے سبب آنے والے نقصانات کو بھی کم کردیا ہے۔ فوکس ہمیشہ سے قدرتی آفات سے نمٹنے اور متاثرہ علاقے اور لوگوں کی مدد کیلئے سرگرم عمل رہتا ہے اس حوالے سے فوکس کے ریجنل پروگرام مینیجر نذیر احمد سے بات چیت کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے فوکس کے زیر اہتمام کئی ٹیمیں تیار کی ہیں جو کسی بھی ناگہانی واقع کی صورت میں متاثرہ علاقے اور لوگوں کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرینگی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فوکس نے گلگت بلتستان کے 25ہزار افراد کو قدرتی آفات سے نمٹنے اور آفات کے بعد متاثرہ علاقے اور لوگوں کی مدد کیلئے تربیت دیکر ٹیمیں تیار کی ہیں۔

گلگت بلتستان میں آنے والے قدرتی آفات جن میں لینڈ سلائیڈنگ ، زلزلہ ، گلاف ، گلیشرز پگھلاؤ کے سبب سیلاب کا آنا دیگر شامل ہیں۔قدرتی آفات کے سبب یہاں کے باسی کئی مسائل کا شکار رہتے ہیں جن میں لینڈ سلائیڈنگ کے سبب گلگت بلتستان کا واحد راستہ قراقرم ہائی وے اکثر بند رہتا ہے جس سے اقتصادی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گلیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے گلگت بلتستان سے گزرنے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں ایسے انڈسٹریز قائم کئے جائیں گے جن سے گلگت بلتستان کا قدرتی ماحول خراب نہ ہو۔ انڈسٹریز کے قیام سے بہت زیادہ مقدار میں ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے اور یہ آلودگی گلگت بلتستان میں موجود گلیشرز کے پگھلاؤ میں تیزی کا سبئب بھی بن سکتی ہے۔ جس سے گلگت بلتستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور گلیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے اکنامک کوریڈور پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیںَ گلیشرز کے پگھلنے کے سبب قراقرم ہائی وے کو نقصان پہنچنے کے خطرات ہیں جس سے اکنامک کوریڈور منصوبہ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ گلگت کے ڈائریکٹر میٹرولوجسٹ زبیر احمد صدیے نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ نے سب سے پہلے گلگت بلتستان میں گلاف کے اوپر تحقیق کا کام شروع کیا پورے گلگت بلتستان کے گلیشرز کی تحقیق کی گئی۔ محکمہ موسمیات کے پائلٹ پراجیکٹ گلاف کی بگروٹ اور چترال میں بہتر کارکردگی کے باعث 2015ـ2014میں گلاف سیلاب آئے لیکن محکمے کی وقتی عوام کو آگاہی کے باعث انسانی جانوں کا نقصان صفر رہا ہے۔ اس سے پہلے گلگت بلتستان میں آنے والے گلاف کی وجہ سے بہت نقصان ہوا کرتا تھا گلاف کے ادارے چترال اور بگروٹ میں کامیابی کے بعد ان جن علاقوں میں گلیشرز ، جھیلوں کے نقصان کے خطرات ہیں ان پر بھی کام کیا جائیگا۔

پاکستان میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ گلگت کے ڈائریکٹر زبیر احمد صدیقی نے ایک کے جواب میں سوال بتایا کہ جن علاقوں میں گلاف کے آنے کے خطرات ہیں ان کی نشاندہی کرنے کے بعد میڈیا کے ذریعے سیکریٹریز ، چیف سیکریٹری ، پولیس ڈیپارٹمنٹ ، آغا خان فاؤنڈیشن کو بلا کر آگاہی فراہم کی ہے۔ اب ان اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں مزید آگاہی فراہم کرے۔

Climate Change in Gilgit-Baltistan

Climate Change in Gilgit-Baltistan

ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں تیزی سے پگھلنے والے گلیشئرز جھیلوں کی اہم وجہ گلوبل وارمنگ اور جنگلات کی کٹائی ہے جس کی وجہ سے کلائمنٹ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور درجہ حرارت میں تبدیلی آتی ہے اگر درجہ حرارت میں تھوڑا بھی اضافہ ہوجاتا ہے تو اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑتا ہے لیکن اس سے گلیشئرز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو گلیشئرز کے پگھلنے میں تیزی کا سبب بن جاتا ہے جو گلاف کا باعث بنتی ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان بھر میں کلائمٹ کے منفی اثرات سب سے زیادہ گلگت بلتستان پر پڑتے ہیں۔

موسمی تفیرات کے باعث اس سال بھی بارشیں زیادہ ہونے کے خدشات ہیں۔ عوام اور ہر ذمہ دار فرد کو چاہئے کہ آنے والے قدرتی آفات سے آگاہی حاصل کرے کہ ان کے علاقے میں کس قسم کے قدرتی آفات رونما ہوسکتے ہیں تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

گلگت بلتستان میں تیزی سے پگھلنے والے گلیشئرز جن کی وجہ سے موسمی تفیرات یا گلوبل وارمنگ ہے سے نمٹنے کیلئے اقدامات اْٹھاناچاہئے بلکہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر ان پگھلنے والے گلیشئرز سے بننے والے خطرناک جھیلوں سے ملحقہ علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے اگر ان خطرناک جھیلوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو ان کے پھٹنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے۔اس لئے حکومت، متعلقہ ادارے اور میڈیا و چاہئے کہ ان علاقوں میں رہائش پذیر عوام کو اس حوالے سے شعور دیں اور جھیلوں سے درپیش خطرات سے قبل از وقت محتاط رہنے کیلئے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً عوام کو آگاہی دینے کے ساتھ ان خطرناک جھیلوں کی نگرانی بھی ضروری ہے۔گلگت بلتستان میں ہونے والی موسمی تفیرات اور ان کے اثرات کے حوالے سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر ہونے والے کانفرنسز میں شرکت کرنے والے ذمہ دار افراد کی جانب سے اب تک ماحاصل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام میں موثر شعور و آگاہی کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں اور ذمہ دار افراد کے اس حوالے سے کانفرنسز میں شرکت محض سیر سپاٹے ثابت ہوگئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں گلوبل وارمنگ سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے متعلقہ اداروں اور سائنسدانوں اور ماہرین کے تجاویز پر عملدرآمد کیا جائے اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت، بیوروکریسی اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صف میں شامل ہوکرگلوبل وارمنگ سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر خدانخواستہ واقعہ رونما ہونے کی صورت میں فوری اقدامات کیلئے سرکاری مشینری تیار کی جائے اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس حوالے سے پابند بنایا جائے۔

Shreen Karim

Shreen Karim

تحریر: شیرین کریم