گلگت/ بلتستان الیکشن

Gilgit Baltistan Election

Gilgit Baltistan Election

تحریر : روہیل اکبر
آج بروز پیر گلگت/ بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24سیٹوں کے لیے ہنگامہ خیز اور غیر متوقع نتائج کے حامل الیکشن ہورہے ہیں وہاں کے سیاسی اور سماجی حلقوں سمیت دیگرباخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر گلگت / بلتستان میں منصفانہ الیکشن ہوئے تو مجلس وحدت مسلمین تقریبا 6 سے 8 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوجائیگی جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے جن میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ بھی شامل ہونگے جو سکردو کے حلقہ 1سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ مہدی شاہ اپنے حلقہ سے بری طرح ہاریں گے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے علاقہ میں ایسا کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جسکی وجہ سے انہیں اپنے حلقہ میں جیت کے لیے ووٹ مل سکیں گلگت / بلتستان میں اس وقت جس جماعت نے سب سے کم وقت میں اپنی جگہ بنائی ہے وہ ہے

مجلس وحدت مسلمین جو گلگت اور بلتستان کے حلقوں میں نہ صرف ایک بڑی جماعت بن کر ابھری ہے بلکہ اس جماعت نے علامہ راجہ ناصر عباس کی سربراہی میں ماضی کی تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو پس پشت ڈال کر ناکوں چنے چبوادیے ہیں اس وقت آل پاکستان مسلم لیگ کے ایک امیدوار کے سوا تقریبا تمام امیدوار ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں کے حق میں دستبردارہوچکے ہیں جبکہ ایک اور منظر عام پر آنے والی نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی بھی پہلی بار گلگت/ بلتستان کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے مگر انکا کوئی خاص ووٹ بنک نہیں ہے جبکہ دوسری جانب اس علاقے میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے لوگوں کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری توجہ دیکراس علاقہ میں ترقیاتی کاموں کو ترجیع دی جس کی وجہ سے گلگت /بلتستان میں پرویز مشرف کو چاہنے والے بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں یہی افراد پرویز مشرف کا ووٹ بنک بھی ہیں آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدواروں کا ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں کے حق میں دستبردار ہونا اس بات کی علامت ہے

Musharraf

Musharraf

کہ پرویز مشرف بھی ایم ڈبلیو ایم کے سپورٹر ہیں جنا ووٹ یقیناًراجہ ناصر عباس کے حصہ میں آئے گا گلگت/ بلتستان کے عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ ایم ڈبلیو ایم واضح برتری کے ساتھ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے گی جبکہ دوسری جانب اس کے مقابلے میں ن لیگ 4تحریک انصاف 4اور جماعت اسلامی کوئی بھی سیٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی کیونکہ یہ ماضی میں بھی کوئی سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جبکہ ما ضی میں جے یو پی(ف) 2سیٹیں حاصل کرتی رہی تھی اب ایک بھی ناممکن ہے ان تمام جماعتوں کے مقابلے میں ایم کیو ایم کا حسب سابق اس باربھی ہونے والے الیکشن میں کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی حلقہ 5 سکردو سے اے پی ایم ایل کے امیدوار مظفر پاروی ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر شجاعت کے حق میں دستبر دار ہوگئے ہیں۔

گلگت/ بلتستان کے مختلف اضلاح میں ایم ڈبلیوایم کی جوڑ توڑ کی سیاست نے نہ صرف اپنی پوزیشن مظبوط کرلی ہے بلکہ دوسری تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے درد سر بن چکی ہے جبکہ بعض حلقوں میں آزاد امیدواروں کی بھی پوزیشن بہت مضبوط ہے جیتنے والے آزاد امیدوار اپنا ووٹ اسی پارٹی کی جھولی میں ڈالیں گے جو حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔ گلگت/ بلتستان میں اس بار ہونے والے الیکشن کو کانٹے دار مقابلہ کا نام بھی دیا جارہا ہے ،ایم ڈبلیو ایم کو گلگت/ بلتستان اتنی بڑی سیاسی جماعت بنانے میں جہاں علامہ راجہ ناصر عباس کی محنت اور کاوش ہے وہیں پر تمام کارکنان اور عہدیدار کی محنت بھی شامل ہے جبکہ شعبہ سیاسیات کے سربراہ ناصر شیرازی اور شعبہ نشرواشاعت کے انچارج مظاہر شگری کی انتھک کوششیں بھی شامل ہیں۔

Rohil Akbar

Rohil Akbar

تحریر : روہیل اکبر