عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ 20 فیصد گھٹ گیا

Textile

Textile

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں پہلی ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت 188 ارب روپے مالیت کے پیکج پرصرف 15 فیصد عمل درآمد کے نتیجے میں شعبہ ٹیکسٹائل کی افزائش کی شرح نہ صرف صفرفیصد رہی بلکہ ملازمتوں کے نئے مواقع بھی پیدا نہ ہوسکے اور ٹیکسٹائل پروڈکٹس کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ 2.2 فیصد سے گھٹ کر 1.8 فیصد پر آگیا۔

پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے حکومت کومتنبہ کیا ہے کہ مقامی سطح پرکاروباروپیداواری لاگت میں کمی نہ کرنے کی صورت میں دیگربرآمدی شعبوں کی طرح ریڈی میڈ گارمینٹس اور ویلیوایڈڈ سیکٹر کی بقا بدستورخطرے سے دوچار رہے گی۔ اس ضمن میں ’’پریگمیا‘‘ کے چیئرمین اعجاز کھوکھرنے بتایا کہ چند سال قبل تک پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹرکی برآمدات کا حجم بھارتی ٹیکسٹائل کے قریب ترین تھا تاہم پڑوسی حریف ملک کی موثر پالیسیوں اور حکمت عملی کے باعث بھارتی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 33 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔

اعجاز کھوکھرنے بتایا کہ 2008-2013 کے دوران ٹیکسٹائل کے شعبے میں چین نے 35.29 ملین اسپنڈلز،بھارت نے 14.2 اور بنگلہ دیش نے 1.98 ملین اسپنڈلز کا اضافہ کیا جبکہ پاکستان نے ان 5 برسوں میں صرف 1.02 ملین اسپنڈلز کا اضافہ کیا۔ پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14 کا بھارت کے 11 ویں 5 سالہ منصوبہ 2007-12 کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں متعارف کردہ پہلی ٹیکسٹائل پالیسی پربمشکل15 فیصد عمل درآمد کیا گیا جس کی وجہ سے پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کے بجائے اس شعبے کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت کی140 ارب روپے مالیت کی 11 ویں پانچ سالہ ٹیکسٹائل منصوبے پر 115 فیصد نٖفاذ کیا گیا۔

جس سے بھارتی ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں 76 فیصد کا ریکارڈاضافہ اور ایک کروڑ 60 لاکھ براہ راست ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے، انکا کہناتھا کہ خطے کی سطح پراگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت،بجلی کا ٹیرف،بینکوں کاشرح منافع،اجرت،گیس اور پانی کی قیمتیں دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہیںجوکاروبار میںبڑی رکاوٹ ہے، ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کی برآمدات ملک کے مجموعی برآمدات کے 45 فیصد اور ٹیکسٹائل شعبے کے84 فیصدہے جن میں ایپرل، نٹڈگارمنٹس،ووون گارمنٹس،بیڈ ویئر، پروسیسڈ فیبرکس،نٹڈو ووون فیبرک اور تولیے وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کا شعبہ سب سے زیادہ روزگار پیدا کرتا ہے جوملک کے مجموعی روزگار کا 34 فیصد ہے، پریگمیا کے وائس چیئرمین نصیرملک نے بتایا کہ ویلیو ایڈیشن کلچر متعارف کرائے بغیر پاکستان بین القوامی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکتا، انھوں نے بتایا کہ روئی کی فی ملین بیلز پر کمائی دیکھی جائے تو اس میں پاکستان دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ پاکستان ایک میلین بیلز پر 1.17 ارب ڈالرز جبکہ بنگلہ دیش 6 ارب، چین 7.09 ارباور جنوبی کوریا 10.68 ارب ڈالرزکماتا ہے۔ دنیا میںکاٹن پیدا کرنے والا پاکستان چوتھا بڑاملک ہے اور اسے خام مال فراہم کرنے والا ملک کہا جاتا ہے۔

پاکستان سالانہ 13.4 بیلز پیدا کرتا ہے اور اگر اس کا 50 فیصد بھی ویلیو ایڈڈ میں تبدیل کرلیا جائے تو ہم بنگہ دیش کے برابر قیمتیں وصول کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سیلزٹیکس ریفنڈ اور کسٹم ریبیٹ کی عدم ادائیگی کے باعث پاکستان کے برآمد کنندگان کومالی مشکلات کا سامنا ہے۔ بین القوامی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے سرواول کیلیے حکومت کوموثر اقدات کرنے ہوں گے۔پاکستان کی تباہ شدہ معیشت کی بحالی کی آخری امید صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔